The Message: بچوں کی دنیا

home jobs

بچوں کی دنیا





















مثبت سوچ
کسی ریاست میں ایک بہت امیر شخص رہتا تھا۔دُنیا کی ہر آسایش اُس کے پاس تھی ۔ اس کا ایک ہی بیٹا تھا جو تنہائی پر تعیش زندگی گزار رہا تھا۔
    کسی ریاست میں ایک بہت امیر شخص رہتا تھا۔دُنیا کی ہر آسایش اُس کے پاس تھی ۔ اس کا ایک ہی بیٹا تھا جو تنہائی پر تعیش زندگی گزار رہا تھا۔
    ایک دن اس شخص نے سوچا کہ کسی طرح مجھے اپنے بیٹے کو اس بات کا احساس دلانا چاہیے کہ وہ کس قدر عیش وعشرت کی زندگی گزار رہا ہے۔ اسے علم ہونا چاہیے کہ ہمارے معاشرے میں بہت سے غریب لوگ بھی رہتے ہیں اور وہ غربت میں کس طرح گزارا کرتے ہیں تاکہ میرے بیٹے کوان چیزوں کی قدر وقیمت کا احساس ہو جو اُسے میسر ہیں اور اس مال و دولت کی قدر ہو جو میں نے اُسے دے رکھی ہے۔
    یہی سوچ کر اُس نے فیصلہ کیا کہ ایک وہ اپنے بیٹے کو کسی گاوٴں لے جائے گا اور وہ پورا دن کسی غریب کسان کے گھر گزاریں گے۔ وہ اپنے بیٹے کے ہمراہ اپنی ریاست کے چھوٹے سے گاوٴں میں پہنچا اور پورا دن وہ دونوں ایک کسان کے ساتھ رہے۔ اس شخص نے اپنے بیٹے کو پورا گاوٴں دکھایا اور گاوٴں کے لوگوں کا رہن سہن ، کھانا پینا اور پہننا اوڑھنا بھی دکھایا۔ غرض اس نے بیٹے کو گاوٴں کی زندگی سے اچھی طرح روشناس کروا دیا۔
    امیر آدمی کے بیٹے کیلئے یہ سب کچھ بہت نیا اور انوکھا تھا۔ وہ انتہائی دل چسپی سے سب کچھ دیکھتا رہا۔
    گاوٴں سے واپسی پر اُس امیر شخص نے اپنے بیٹے سے پوچھا:”بیٹا ! یہ پکنک کیسی لگی؟۔
    ”بہت اچھی۔“بیٹے نے جواب دیا۔
    ”تم سے دیکھا کہ غریب لوگ کس طرح زندگی گزارتے ہیں؟“ باپ نے پوچھا۔
    ”جی ہاں۔“ بیٹے نے مودبانہ لہجے میں جواب دیا۔
    ”اور اس سے تم نے کیا سیکھا؟“ باپ نے پوچھا۔
    بیٹے نے کچھ دیر سوچ کر جواب دیا۔” میں نے دیکھا کہ ہمارے پاس گھر میں ایک کتا ہے اور اُن کے پاس گاوٴں میں چار کتے ہیں۔ ہمارے پاس ایک سوئمنگ پول ہے جو ہمارے گھر کی حدود میں ہے جب کہ ان کے پاس دریا ہے ندیاں ہیں جن کی کوئی حد ہی نہیں ہے۔ ہمارے پاس قیمتی بلب اور ٹیوب لائٹیں ہیں جو ہمارے گھر کے باغیچے کو رات میں روشن رکھتی ہیں جب کہ وہاں گا وٴں میں غریب لوگوں کے سروں پر چمکتے دمکتے ستارے ہیں جواندھیرا ہوتے ہی خود بخود چمکنے لگتے ہیں۔ ہمارے گھر کا لان گھر کی دیوار کے ساتھ ختم ہو جاتا ہے اور ان کا لان وہ زمین ہے جو تاحدِ نگاہ پھیلی ہوئی ہے۔
    بیٹے کا جواب سن کر باپ لا جواب ہو گیا۔
    بیٹے نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے مزید کہا:” بہت شکریہ ابا جان کہ آپ نے مجھے بتایا دکھایا اور احساس دلایا کہ ہم کس قدر غریب ہیں۔“
    یہ ایک آفاقی سچ ہے کہ سب کچھ صرف ہمارے دیکھنے اور سوچنے کے انداز پر منحصر ہے ۔ ایک مشہور کہاوت ہے:” ہم چیزوں کو ویسے نہیں دیکھتے جیسی وہ ہوتی ہیں بلکہ ویسا دیکھتے ہیں جیسے ہم ہوتے ہیں۔“
    ہماری زندگی ہماری سوچ پر منحصرہے۔ ہم ہمیشہ اُسی طرح زندگی گزارتے ہیں جس طرح کی ہماری سوچ ہے۔ اگر آپ مثبت سوچ اور مثبت شخصیت کے مالک ہیں تو آپ کی زندگی یقینا پُر سکون ، خوش حال اور اعلا معیار کی ہوگی۔ اگر آپ کے پاس پیار، محبت، دوست ، خاندان، اچھی صحت اور زندگی کے بارے میں مثبت سوچ ہے تو آپ کے پاس سب کچھ ہے ان چیزوں کو نہ تو آپ خرید سکتے ہیں اور نہ کسی سے چھین سکتے ہیں۔زندگی میں سب مادی اشیا آپ حاصل کر سکتے ہیں۔ جو کچھ آپ سوچتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ آپ کے پاس مادی اسباب ہوں ، وہ مستقبل میں کبھی نہ کبھی آپ حاصل کر ہی لیتے ہیں لیکن اگر آپ میں وہ سب کچھ حاصل کرنے کا جوش وجذبہ اور ہمت وجرات نہیں ہے تو پھر آپ کے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔


 مغرور


بہت عرصہ ہوا کہ ایک مغرور اور بد کار شہزادہ تھا جوسوچتا تھا کہ وہ کس طرح دنیا کی تمام 
مملکتوں کو فتح کرے اور انسانیت اس کے نام سے کانپنے لگے ۔ اس کے سپاہیو ں نے قتل و غارت مچائی، کھیتوں اور غلوں کو روند دیا اور غریبوں کے گھروں کو آگ لگا دی جن کے شعلوں سے درختوں کے پتہ جل گئے اور کالی جلی ہوئی شاخوں پر لگے پھل بُھن گئے ۔ کئی مائیں اپنے ننگے بچوں کو لے کے بھاگیں اور دھوؤں کے غبار کے پیچھے پناہ لینے کی کوشش کی۔ مگر سپاہوں نے ان کا پیچھا کیا ان کو پکڑ لیا۔ پھر ان کے ساتھ اپنی شیطانی خواہشات پوری کیں۔ ایسا تو خود شیطان بھی نہیں کرتا۔ لیکن شہزادہ نے اپنے سپاہیوں کی ان شیطانی حرکات سے مزا لیا۔

وقت کے ساتھ ساتھ اسکا دائرہ اختیار وسیع ہوتا گیا یہاں تک کے لوگوں کو صرف اس کے نام سے خوف آنے لگا۔

ان فتوحات سے حاصل کے ہوئے سونے اور ان لوٹے ہوئے قیمتی خزانوں سے حاصل کی ہوئی دولت سے اس نے اپنی سلطنت کو ایسی چیزوں سے بھر دیا جن کا دنیا میں کوئی ثانی نہیں تھا۔ اس کے بعد اس نے محلات،گرجا اور دوسری عمارتیں بنوائیں جن کی چمک دمک دیکھ کر لوگ کہتے تھے ” واہ یہ تو عظیم شہزادہ ہے !” ایک لمحہ کے لیے بھی انہوں نے یہ نہیں سوچا اس ظالم نے دنیا میں کتنی قتل و غارت اور بربادی پھیلائی ہے ۔ انہوں نے کبھی ان مظلموں کی آہیں اور سسکیاں کو نہیں سننا تھا جو تباہ کردہ شہروں کے ملبوں سے اٹھتی تھیں۔اور جب شہزادہ اپنے سونے جواہر کو اور ان عالیشان عمارتوں کو دیکھتا جواس کے نام ہیں بنی تھیں وہ بھی ان لوگوں کی طرح سوچتا تھا۔ ” واہ میں تو عظیم شہزادہ ہوں!” لیکن میرے پاس اور بھی زیادہ ہونا چاہیے تاکہ کوئی میری برابری نہیں کرسکے ۔چنانچہ اس نے اور جنگیں لڑیں اور دوسری سلطنتیں فتح کیں۔ ان شکست خوردہ بادشاہوں کو سنہری زنجیروں سے اس کے رتھ کے ساتھ باندھا جاتا تھا اور ان کو شہر کی سڑکوں پرگھسیٹاجاتا تھا۔ اور جب یہ شیطان شہزادہ اور اس کے درباری کھانے کی میز پر بیٹھتے تھے تو شکست خوردہ بادشاہوں کو ان کے پیروں کے نزدیک بٹھایا جاتا تھا اور ان کو درباریوں کے پھینکے توڑوں کو کھانا پڑتا تھا۔

مغرور اور بد کار شہزادے نے اپنے مجسمے تمام عوامی جگہوں اور تمام محلوں میں نصب کروائے تھے ۔ وہ تو شاید گرجا گھروں کی مذہبی میز پر بھی ایسا کرتا مگر پادریوں نے کہا ” شہزادے آپ عظیم ہیں مگر خدا آپ سے بھی بڑا ہے اس لئے ہم آپ کا حکم نہیں مان سکتے “۔

اچھا اگر ایسا ہے “۔ بد کار شہزادے نے کہا ” تب میں خدا کو بھی فتح کر لوں گا”۔

اور پھر اپنے تکبر و غرور اور گمان سے یہ حکم دیا کہ ایک ایسا جہاز تیار کیا جائے جو فضا میں اُڑسکے ۔ اس جہاز کا رنگ مور کے پروں کی طرح رنگ برنگا تھا اور اس میں ہزار آنکھیں تھیں لیکن وہ آنکھیں دراصل بندوقوں کی نالیاں تھیں۔

شہزادہ اس جہاز کے بیچ میں بیٹھ کر صرف ایک بٹن دبا کر ایک ساتھ ایک ہزار گولیاں چلاسکتا تھا اور یہ بندوقیں فوراً ہی نئی گولیوں سے بھر جاتیں تھیں۔ سینکڑوں عقاب اس جہاز پراس طرح باندھے گئے تھے کے وہ اس جہاز کو اُڑاسکیں۔اور اب جہاز ایک تیر کی طرح سورج کی طرف آڑا۔ جلد ہی زمین بہت نیچے رہ گئی۔ اوپر بلندی سے پہاڑ اور جنگل، کھیتوں کی طرح دکھائی دے رہے تھے اور اونچائی سے اب زمین پر کہیں کہیں سبزہ سا نظر آتا تھا۔ جیسے جیسے عقاب اپنے عظیم پروں سے اوپر اُڑتے  گئے ہر چیز دھند اور کہر میں چھپ گئی۔ تب خدا نے اپنے ہزار ہا فرشتوں میں سے ایک فرشتہ کو بھیجا۔ بد کار نے فوراً ہزار گولیاں چلائیں۔ مگر وہ سب فرشتے کے چمکیلے پروں سے ٹکرا کر برف کے اولوں کی طرح زمین پر گریں۔ اسکے بعد شہزادہ کے جہاز پر فرشتے کے سفید پروں سے خون کی ایک بوند پر گری۔ یہ بوند شہزادے کے جہاز کے لیے اتنی بھاری تھی کے بوجھ سے جہاز تیزی سے زمین کی طرف گر نے لگا۔ عقابوں کے عظیم پر ٹوٹ گئے اور شہزادے کے ارد گرد تیز ہوائیں چلنے لگیں اور پھر اُسے بادلوں نے گھیر لیا۔اور یہ بادل شاید ان شہروں کی آگ کا دھواں تھا جن کو شہزادے نے جلایا تھا ان بادلوں نے ایک عجیب ہیئت اختیار کر لی تھی۔ ان میں سے کچھ میلوں لمبی ٹانگوں والے کیکڑوں کی طرح تھے اور کچھ پہاڑوں کے بڑے ٹکڑے تھے یا آگ اگلتے ہوئے  اژدہے ۔ شہزادہ جہاز کے اندر نیم مردہ پڑا تھا۔ آخر کار جہاز گر کر جنگل کی گھنی شاخوں میں الجھ گیا۔

” میں خدا کو فتح کروں گا”۔ اس نے کہا۔ ” میں نے یہ عہد کیا ہے ۔” میرا عہد پورا ہو گا”۔

تب اس نے آنے والے سات سالوں میں اپنے لیے ایک نیا مضبوط اور عظیم الشان جہاز بنوایا جس میں وہ ہوا میں اُڑسکے ۔ اس میں اس نے سخت ترین لوہے کی برچھیاں لگوائیں تاکہ ان سے جنت کی حفاظتی دیواروں کوگراسکے ۔ اپنی مفتوحہ ملکوں سے اس نے اتنے جنگجوؤں کو جمع کیا کے اگر وہ شانہ بہ شانہ کھڑے ہوں تو میلوں لمبی دیوار بن جائے ۔ اور انکے لیے بھی اڑنے والے جہاز بنوائے ۔

وہ تمام اس اپنے اپنے جہازوں میں سوار ہو گئے ۔ مگر جب شہزادہ جہاز کی طرف بڑھا تو خدا نے کالے مچھروں کا ایک جھنڈ بھیجا۔ یہ مچھر شہزادے کے ارد گرد چکر لگانے اور بھنھناتے ہوئے اس کے چہرے اور ہاتھوں ہر ڈنک مارنے لگے ۔ شہزادے نے غصہ سے ہوا میں تلوار چلائی مگر وہ ایک مچھر کو بھی نہ چھوسکا۔ تب اس نے خادموں کو ایک موٹا شاہی لبادے لانے کو کہا۔ اور پھر شہزادے کو اس لبادے میں لپیٹ دیا گیا تاکہ مچھراس کے جسم تک نہ پہنچ سکیں۔ تمام کوششوں کے باوجود ایک چھوٹے سے مچھر نے ان کپڑوں میں جگہ بنا لی تھی۔ اس نے شہزادہ کے کان میں رینگ کر ڈنک مارا۔ جس جگہ ڈنک لگا۔اس کی جلن آگ کی طرح تھی۔ اور اس کا زہر خون میں پھیل کر تیزی سے اس کے دماغ کی طرف جانے لگا۔ شہزادے نے اپنے کپڑے پھاڑنے اور ان کو اپنے بدن سے جدا کرنا شروع کر دیا۔ اب وہ برہنہ تھا اور کان میں جلن کی وجہ سے اچھل کود رہا تھا۔

اس کے سب جنگجواس پر ہنس رہتے تھے اور اس کا مذاق اُڑا رہے تھے ۔شیطان شہزادہ جو خدا کو فتح کرنے چلا تھا اس پاگل کو ایک مچھر نے شکست دے دی۔




 خواب

سعودی عرب کے رہائشی ایک شخص نے خواب دیکھا کہ ایک شخص اس سے کہہ رہا تھا اس فون نمبر پر رابطہ کرو اور فلاں شخص کو عمرہ کراوٴ۔ فون نمبر بڑا واضح تھا۔ نیند سے بیدار ہوا تو اسے خواب اچھی طرح یاد تھا مگر اس نے وہم جانا اور خواب کو نظر انداز کردیا۔ تین دن مسلسل ایک ہی خواب نظر آنے کے بعد وہ شخص محلے کی مسجد کے امام کے پاس گیا اور اسے بتایا: امام مسجد نے کہا فون نمبر یاد ہے تو پھر اس شخص سے رابطہ کرو اور اسے عمرہ کروا دو۔
اگلے روز اس شخص نے خواب میں بتلایا ہوا نمبر ڈائل کیا ، جس شخص نے فون اٹھایا اس سے ضروری تعارف کے بعد اس نے کہا: مجھے خواب میں کہا گیا ہے کہ میں تمہیں عمرہ کرواوٴں ، لہذا میں اس نیک کام کی تکمیل کرنا چاہتا ہوں ۔ جس آدمی کو اس نے فون کیا وہ زور سے ہنسا اور کہنے لگا کونسے عمرہ کی بات کرتے ہو؟ میں نےتو مدت ہوئی کبھی فرض نماز بھی ادا نہیں کی اور تم کہتے ہو کہ تم مجھے عمرہ کروانا چاہتے ہو....!!
جس شخص نے خواب دیکھا تھا وہ اس سے اصرار کرنے لگا۔ اسے سمجھایا کہ ... میرے بھائی ! میں تمہیں عمرہ کروانا چاہتا ہوں ، سارا خرچ میرا ہوگا۔ خاصی بحث اور تمہید کے بعد آدمی اس شرط پر رضامند ہوا کہ ٹھیک ہے میں تمہارے ساتھ عمرہ کرونگا مگر تم مجھے وآپس ریاض میرے گھر لیکر آوٴ گے اور تمام تر اخرجات تمہارے ہی ذمہ ہونگے......
وقتِ مقررہ پر جب وہ ایک دوسرے کو ملے تو خواب والے شخص نے دیکھا کہ واقعی وہ شکل وصورت سے کوئی اچھا انسان نہیں دکھائی دیتا تھا۔ اس کے چہرے سے عیاں تھا کہ وہ شرابی ہے اور نماز کم ہی پڑھتا ہے۔ اسے بڑا تعجب ہوا کہ یہ وہ ہی شخص ہے جسے عمرہ کرنے کے لئے خواب میں تین مرتبہ کہا گیا...
دونوں شخص مکہ مکرمہ عمرہ کے لئے روانہ ہوگئے۔ میقات پر پہنچے تو انہوں نے غسل کرکے احرام باندھا اور حرم شریف کی طرف روانہ ہوئے ، انہوں نے بیت اللّٰہ کا طواف کیا ۔ مقامِ ابرہیم پر دو رکعت نمازادا کی، صفا و مرہ کے درمیان سعی کی ۔ اپنے سروں کو منڈوایا اور اسطرح عمرہ مکمل ہوگیا۔
اب انھوں نے واپسی کی تیاری شروع کردی ۔ حرم سے نکلنے لگے تو وہ شخص جو بہت کوشش سے عمرہ کرنے پر آمادہ ہوا تھا کہنے لگا: '' دوست حرم چھوڑنے سے پہلے میں دو رکعت نفل ادا کرنا چاہتا ہوں ، نجانے دوبارہ عمرہ کی توفیق ہوتی بھی ہے یا نہیں ۔''
اسے کیا اعتراض ہوتا اس نے کہا: '' نفل پڑھو اور بڑے شوق سے پڑھو۔ اس نے اس کے سامنے نفل ادا کرنے شروع کر دئیے۔ جب سجدہ میں گیا تو اس کا سجدہ طویل سے طویل تر ہوتا چلا گیا .....
جب کافی دیر گزرگئی تو اس کے دوست نے اسے ہلایا ... جب کوئی حرکت نہیں ہوئی تو اس پر انکشاف ہوا کہ اس کے ساتھی کی روح حالتِ سجدہ ہی میں پرواز کرچکی تھی....
اپنے ساتھی کی موت پر اسے بڑا رشک آیا اور وہ روپڑا کہ یہ تو حسنِ خاتمہ ہے، کاش ! ایسی موت میرے نصیب میں ہوتی، ایسی موت تو ہر کسی کونصیب ہو،وہ اپنے آپ سے ہی یہ باتیں کر رہا تھا......
اس خوش قسمت انسان کو غسل دیا گیا، اور احرام پہنا کر حرم میں ہی اس کی نماز جنازہ ادا کی گئی۔ ہزاروں فرزندان اسلام نے اس کا جنازہ پڑھا اور اس کی مغفرت کے لئے دعا کی گئی.....
اس دوران اس کی وفات کی اطلاع ریاض اسکے گھروالوں کو دی جاچکی تھی، خواب دیکھنے والے شخص نے اپنے وعدہ کے مطابق اس کی میت کو ریاض پہنچا دیا،جہاں اسے دفن کر دیا گیا....
چند ایام گزرنے کے بعد خواب دیکھنے والے شخص نے اس فوت ہونے والے کی بیوہ کو فون کیا۔ تعزیت کے بعد اس نے کہا : '' میں جاننا چاہتا ہوں کہ تمہارے شوہر کی ایسی کونسی نیکی یا عادت تھی کہ اس کا انجام اسقدر عمدہ ہوا۔ اسے حرمِ کعبہ میں سجدہ کی حالت میں موت آئی.....
بیوہ نے کہا: بھائی تم درست کہتے ہو میرا خاوند کوئی اچھا آدمی نہ تھا۔ اس نے ایک لمبی مدت سے نماز روزہ بھی چھوڑ رکھا تھا۔ اور شراب پینے کا عادی تھا، میں اسکی کوئی خاص خوبی بیان تو نہیں کرسکتی .... ہاں ! مگر اس کی ایک عادت یہ تھی کہ ''وہ ہمارے ہمسایہ میں ایک غریب بیوہ اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کیساتھ رہتی ہے، ''میرا شوہر روزانہ بازار جاتا تو جہاں اپنے بچوں کے لئے کھانے پینے کی چیزیں لاتا وہ اس بیوہ اور اس کے یتیم بچوں کیلئے بھی لے آتا، اور اس کے دروازے پر رکھ کر اسے آواز دیتا کہ میں نے کھاناباہر رکھ دیا ہے، اسے اٹھا لو۔ ''
یہ بیوہ عورت کھانا اٹھاتی اور ساتھ میرے خاوند کے لئے دعا کرتی:
'' اللّٰہ تمہارا خاتمہ بالخیر کرے''
قارئینِ کرام اسطرح اس بیوہ کی دعا اللّٰہ تعالٰی نے قبول فرمالی۔ اور اس شرابی کا اتنے عمدہ طریقے پر خاتمہ ہوا کہ اس پر ہر مسلمان کو رشک آتا ہے۔
قارئینِ کرام اس بات کو ہمیشہ یاد رکھئے کہ اللّٰہ کے رسول ﷺ کا یہ فرمان بھی ہے کہ.....
'' بھلائی کے کام آدمی کو بری موت سے بچاتے ہیں۔''
('دعاوٴں کی قبولیت کے سنہرے واقعات'' سے ماخوذ)



آٹے کے تھیلے


"شہباز!" باورچی خانے سے امی کی آواز آئی۔ میں گھر کے پچھواڑے میں گیند سے کھیل رہا تھا، ان کی آواز سن کر رک گیا۔ میں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ امی نے کس لیے بلایا ہے۔
"شہباز، کدھر ہو؟" امی کی آواز میں مجھے وہ سختی محسوس ہوئی جو کٹہرے میں کھڑے ملزم سے سوال کرتے ہوئے وکیل کی آواز میں ہوتی ہے۔ تیسری بار آواز آئی تو میں نے آہستہ آہستہ گھر کے دروازے کی جانب چلنا شروع کر دیا۔ ساتھ ہی میں یہ بھی سوچنے لگا کہ امی کو کیا جواب دوں گا۔ دروازے کے ساتھ ہی بائیں جانب باورچی خانہ تھا، جہاں امی چوکی پر بیٹھی تھیں۔
"جی؟" میں دروازے کے ساتھ ٹیک لگا کر کھڑا ہو گیا اور نظریں اپنے ننگے پاؤں پر گاڑ دیں، جن پر مٹی جمی ہوئی تھی۔
"آٹے کے تھیلے کہاں گئے؟" امی کے لہجے میں ابھی تک تھانیداروں والی سختی تھی۔ اس سے پہلے کہ میں کوئی جھوٹ بولتا، امی خود ہی بول پڑیں: "دے آیا ہے نا بابا جی کو!"
ہمارے گھر سے شہر کی جانب جانے والی سڑک پر بابا جی کی دکان تھی۔ کچھ عرصہ پہلے بابا جی نے ایک اسکیم شروع کی تھی۔ وہ آٹے کے دس خالی تھیلوں کے بدلے ایک بڑا سا چاکلیٹ دیتے تھے۔ امی کے پاس دس تھیلے پڑے تو تھے، لیکن ان میں سے ایک میں چھوٹا سا سوراخ تھا۔ امی نے کہا تھا کہ ایک اور تھیلا خالی ہونے کا انتظار کروں، مگر اس میں نہ جانے کتنے دن اور لگ جاتے۔ دس کلو آٹا آخر کم تو نہیں ہوتا۔ کل مجھ سے صبر نہیں ہوا۔ میں نے پھٹے ہوئے تھیلے سمیت دس تھیلے امی کی نظر بچا کر اٹھائے، انہیں تہ کیا اور بابا جی کی دکان پر لے گیا۔
بابا جی کی نظر بہت کمزور تھی۔ موٹے موٹے شیشوں والی عینک لگاتے تھے۔ مجھے معلوم تھا کہ انہیں تھیلے میں سوراخ نظر نہیں آئے گا۔ پھر بھی تھیلے ان کی میز پر رکھتے ہوئے میرا دل دھڑک رہا تھا۔ بابا جی نے ایک نظر تھیلوں پر ڈالی، ان کو گنا اور ایک کونے میں رکھ دیا، پھر مرتبان میں سے چاکلیٹ نکال کر مجھے دے دیا۔ میں اپنی کامیابی پر بہت خوش ہوا اور راستے بھر چاکلیٹ کھاتا ہوا گھر لوٹ آیا۔
مگر اب امی نے میری چوری پکڑ لی تھی اور ان کے سامنے جھوٹ بولنا میرے بس کی بات نہیں تھی۔ نہ جانے کیسے انہیں میرے دل کی بات معلوم ہو جاتی تھی؟
امی نے حکم سنا دیا: "جاؤ ابھی بابا جی کے پاس، ان کو یہ نیا تھیلا دے آؤ۔ اس کا آٹا میں نے پیٹی میں ڈال لیا ہے۔ اور اپنی حرکت کی معافی بھی مانگو۔" میرے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی۔ آنسو فوراً ہی آنکھوں میں امڈ آئے۔
"امی، مجھے جو مرضی سزا دے دیں، مگر میں بابا جی سے معافی نہیں مانگ سکتا۔ سب کے سامنے ۔۔۔۔۔" اس سے آگے میری بات رونے کی آواز میں گم ہوگئی۔
"غلطی کی ہے تو معافی مانگو۔ شرم آنی چاہیے تمہیں! بے چارے بابا جی کو دکھائی نہیں دیتا اور تم نے ان کو دھوکا دیا!" امی نے مجھے میری غلطی کا احساس دلانے کی کوشش کی مگر یہ تصور کرکے ہی میری تو جان نکلی جا رہی تھی کہ دکان میں اتنے سارے گاہکوں کے سامنے بابا جی کو اپنی غلطی بتانی پڑے گی۔
"معافی مانگنا دنیا کا سب سے مشکل کام ہے۔" میں نے سوچا۔
مگر امی کے سامنے میری ایک نہ چلی۔ میں آنسو بہاتا اور انہیں پونچھتا گھر سے نکل کھڑا ہوا۔
دوپہر کی گرمی ابھی تک برقرار تھی۔ آسمان پر مئی کا سورج چمک رہا تھا اور ہوا بھی بند تھی۔ کھیتوں کے درمیان تنگ سی سڑک گرد سے اٹی پڑی تھی۔ میں خود کو دنیا کا بد قسمت ترین شخص سمجھتا ہوا چلا جا رہا تھا۔ مجھے امی پر سخت غصہ آرہا تھا۔ سوچنے لگا، بس حکم سنا دیتی ہیں اور چاہتی ہیں کہ فوراً بجا لایا جائے۔ آخر میرے ماں باپ ایسے کیوں ہیں؟ اور بچے بھی تو بے ایمانی کرتے ہیں، ان پر تو کوئی سختی نہیں کرتا۔ دل میں آیا کہ کھیتوں کے پرے جو پہاڑیاں ہیں ان میں چلا جاؤں اور کبھی لوٹ کر نہ آؤں پھر امی مجھے یاد کریں گی اور پچھتائیں گی کہ مجھ پر کیوں ظلم کیا۔ مگر اس کی بھی ہمت نہ پڑی۔
دور سے بابا جی کی تنہا سی دکان دکھائی دی تو میر ی پریشانی میں مزید اضافہ ہوگیا۔ سوچا، تھوڑی دیر ادھر ادھر گزار کر گھر چلا جاؤں اور امی سے جھوٹ بول دوں کہ میں بابا جی سے معافی مانگ آیا ہوں لیکن اس بات کا بخوبی علم تھا کہ ایک نہ ایک دن ضرور پکڑا جاؤں گا۔ دکان میں داخل ہوا تو اتنے سارے گاہکوں کو دیکھ کر میری فکر بڑھ گئی۔ یہ سب میرا تماشا دیکھیں گے۔ میں ایک طرف کھڑا ہو گیا اور سب کے جانے کا انتظار کرنے لگا۔ بابا جی نے ایک نظر مجھ پر ڈالی اور گاہکوں کو سودا دینے میں مصروف ہو گئے۔ ہزاروں طرح کی سوچیں میرے دماغ میں بھگدڑ مچا نے لگیں۔
خدا خدا کرکے سب گاہک دکان سے نکل گئے۔ بابا جی نے اپنی عینک کے اوپر سے مجھے دیکھا۔ "کیوں بھئی شہباز بیٹا، کیا چاہیے؟"
امتحان کا لمحہ آن پہنچا۔ میں نے چند قدم آگے کی جانب لیے۔
"وہ۔۔۔۔۔ دراصل۔۔۔۔۔ وہ ۔۔۔۔۔ میں۔۔۔۔۔ امی ایک تھیلا!" میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیسے اپنی چوری کی بات زبان پر لاؤں۔
"پھٹے ہوئے تھیلے کا بتانے آئے ہو نا؟" بابا جی مسکراتے ہوئے بولے۔ میں حیران رہ گیا کہ بابا جی کو سب پتا تھا۔
" وہ۔۔۔۔۔ امی نے مجھے کہا تھا کہ۔۔۔۔۔"
"تمہاری امی بہت عظیم خاتون ہیں۔۔۔۔۔اور ایک اچھی ماں بھی۔"
میں ابھی تک حیران تھا۔ سوچنے لگا کہ اب آگے کیا ہوگا۔ "یہ تھیلا!" میں نے ہاتھ آگے بڑھایا۔
"یہ تم میری طرف سے انعام سمجھ کر رکھ لو، اپنی بہادری کا انعام۔ تاکہ اگلی دفعہ دس تھیلے جمع کرنے کے لیے تمہیں زیادہ انتظار نہ کرنا پڑے۔ معافی مانگنے والا بڑا بہادر ہوتا ہے۔ مگر یہ ضرور یاد رکھنا کہ تمہیں بہادر بنایا کس نے؟"
بابا جی کی دکان سے گھر لوٹتے ہوئے سورج کی تپش میں خاصی کمی آچکی تھی۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی اور سڑک کی دونوں جانب گندم کے کھیت گویا مستی میں سر دھن رہے تھے۔


مغرور ہاتھی


پیارے بچو! ایک جنگل میں ہاتھیوں کا ایک جھنڈ رہتا تھا ۔ ان ہاتھیوں میں ایک ہاتھی تھا جس کا نام راجا تھا ۔ راجا بہت بڑا بدمست اور مغرور ہاتھی تھا ۔ وہ اپنے ڈیل ڈول اور اپنی بے پناہ طاقت پر بےحد اتراتا تھا ۔ اسے اپنے آگے سب بونے نظر آتے تھے ۔ وہ جب چلتا تھا تو ایسے اٹھلا کے چلتا تھا جیسے وہ اس جنگل کا بے تاج بادشاہ ہو ۔ جنگل میں سارے چرندے پرندے اس سے خوف کھاتے تھے ۔
اگر کوئی غلطی سے اس کے سامنے آ جاتا تھا تو وہ اسے پاﺅں سے کچل کے رکھ دیتا تھا ۔
 جب وہ سویرے سویرے چیختے چنگھاڑتے ہوئے جنگل سے گزرتا تھا رو جنگل کے سارے جانور بد حواس ہو کر اپنے اپنے بلوں میں گھس جاتے تھے ۔ وہ جدھر سے گزرتا تھا ، سارے پیڑ پورے اکھاڑ دیتا تھا ۔ جنگل کے سبھی جانور اس بدمست ہاتھی بڑے دکھی اور پریشان تھے ۔ سبھی جانور اس ہاتھی کے آگے اپنے آپ کو بے بس اور کمزور پاتے تھے ۔ ان سبھی جانوروں کی نظریں شیرجی کی طرف لگی تھیں ۔ ایک دن سب مل کر شیر جی کے پاس چلے گئے اور انھوں کے شیر سے فریاد کی ۔
شیر جو اس جنگل کا بے تاج بادشاہ تھا اور جس کی ایک دہاڑ سے سارا جنگل کانپ اٹھتا تھا، وہ بھی اس بدمست ہاتھی سے الجھنا نہیں چاہتا تھا کیونکہ وہ بھی اندر ہی اندر اس ہاتھی سے خوفزدہ تھا ۔ اس نے بھی ہاتھی سے دور رہنے میں ہی اپنی خیرو عافیت سمجھ لی۔
راجا اپنی طاقت کے نشے میں اس قدر چور تھا کہ وہ اپنے جھنڈ میں رہنے والے ہاتھیوں پر بھی کبھی کبھی قہر برسانے لگتا تھا ۔ اس کے سامنے کسی بھی ہاتھی کو سونڈ اٹھانے کی آزادی نہ تھی ۔ ہاتھی ہو یا ہتھنیاں سب اس کے سامنے سونڈ جھکا کر کھڑی رہتی تھیں ۔ ایک بار ہاتھی کے ایک بچے نے اس کی سونڈ سے کھیلنے کی حماقت کی تو اس نے غصے سے بے قابو ہو کر اس کی جان نکال لی ۔ ایسا موذی تھا وہ ۔ ایک دن پتا نہیں اسے کس بات پر غصہ آیا کہ اس نے جنگل میں اس قدر توڑ پھوڑ کی کہ سیکڑوں پیڑ زمین بوس ہو گئے ۔ بہت سارے جنگلی جانوروں کو گھاس کے لالے پڑنے لگے ۔ وہ یہ علاقے چھوڑ کر ادھر ادھر بھٹکنے پر مجبور ہوگئے ۔کئی جانور بھک مری سے مر گئے ۔ کئی کمزور جانور چٹیل میدان میں آ کر گدھوں اور عقابوں کے قہر کا شکار ہوگئے ۔ ایک بار پھر جنگل کے یہ کمزور جانور ایک جٹ ہو کر شیرجی کے پاس اپنی فریاد لے کر گئے اور رو رو کر اسے اپنا دکھڑا سنایا ۔ شیر آخر کا شیر تھا ۔ اس بار شیر کو بڑا غصہ آیا ۔ اس نے اپنے ساتھیوں کو طلب کیا ۔ بہت دیر تک وہ اس مسئلے پر بہت سنجیدگی سے غورو فکر کرتے رہے ۔ آخر کافی سوچ و بچار کے بعد یہ طے ہوا کہ اس ظالم ہاتھی پر حملہ کیا جائے اور اسے ہمیشہ کے لئے پست کیا جائے ۔

1 comment:

  1. ' بھلائی کے کام آدمی کو بری موت سے بچاتے ہیں۔''

    ReplyDelete

امن کا پیغام پڑھنے والوں کےلیے اک اچھی کاوش ثابت ہوگا انشآء اللہ اس میں آرٹیکل
شاعری اور بہت کچھ مفید ملے گاقرآن اوراحادیث کے متعلق