سورۂ فاتحہ کی ضروری تفصیلات جاننے کے بعد اب ہم باضابطہ پہلے پارے کے خلاصے کا آغاز کرتے ہیں ۔ اس کی ابتدا سورۂ بقرہ سے ہوتی ہے۔ یہ قرآن کریم کی سب سے طویل سورت ہے جو کہ دوچھیاسی آیات پر مشتمل ہے۔ یاد رہے کہ قرآن مجید کی تمام سورتوں کے نام توقیفی ہیں اور ادنیٰ مناسبت کی وجہ سے رکھ دیے گئے ہیں ۔ عربی زبان میں ’بقرہ‘ گائے کو کہتے ہیں ۔ چونکہ اس سورہ میں بقرہ کا لفظ بھی آیا ہے اور گائے ذبح کرنے کا معروف واقعہ بھی مذکور ہے؛ اس لیے اسے’سورۃ البقرہ‘ کہاجاتاہے۔
یہ سورت بہت سی فضیلتوں کی جامع ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اپنے گھروں کو قبرستان نہ بنائو، شیطان اس گھر سے نکل بھاگتاہے جس میں سورۂ بقرہ پڑھی جاتی ہے۔ محدثین کرام نے فرمایا کہ جسے اپنے گھر میں شیطان یا جن وغیرہ کا سایہ محسوس ہو اُسے چاہیے کہ ہفتہ میں دومرتبہ سورۂ بقرہ کی تلاوت کرلیاکرے، اس کی برکت سے اس کا گھرپرسکون ہوجائے گا-ان شاء اللہ-
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مزید فرمایاکہ اے لوگو! سورۂ بقرہ پڑھاکرو؛ کیوں کہ اس کا پڑھنا برکت ہے، اس کا ترک کرنا حسرت ہے اور بدکار لوگ اس کو پڑھنے کی اِستطاعت نہیں رکھتے۔ سنن ترمذی میں ہے کہ ’ہرشے کی ایک چوٹی ہوتی ہے اور قرآن کی چوٹی سورۃ البقرۃ ہے۔
پوری سورت کا لب لباب یہ ہے: عقائد اسلامیہ کی اَساس ایمان بالغیب ہے، اور بن دیکھے اللہ رب العزت کو واحد لاشریک مانناہے۔ اس کے تمام رسولوں پر ایمان لاناہے اور تمام آسمانی کتابوں کو مانناہے، جزاوسزا کا اِقرار کرناہے، اور اعمالِ صالحہ میں ہمہ گیر اور ہمہ جہت عبادت ’نماز‘ کو قائم کرنا ہے،نیز طبقاتی منافرت کا سد باب کرنے کے
لیے اہم عبادت ’زکوٰۃ‘ کو اَدا کرنا ہے؛ اس لیے سورۂ بقرہ ایمان بالغیب، اِقامت صلوٰۃ اور اَداے زکوٰۃ کے بیان سے شروع ہوتی ہے۔
پھر آگے چل کر اس سورت میں شریعت اِسلامیہ کو وضاحت سے بیان کیا ہے اور عبادات اور معاملات کی تفصیل کی گئی ہے اور اقامت صلوٰۃ اور اَداے زکوٰۃ کے علاوہ تحویل قبلہ، توحیدپردلائل، ماہِ رمضان کے روزوں ، بیت اللہ کے حج، جہاد فی سبیل اللہ، والدین اور قرابت داروں کے حقوق، زکوٰۃ و صدقات کے مصارف، یتیموں کی کفالت، عائلی زندگی کے اُصول…اوراحکام میں نکاح، طلاق، رضاعت، عدت اور ایلا کو بیان کیا گیا ہے۔ نیز قسم کھانے کا شرعی حکم، جادو کا حرام ہونا، قتل ناحق کی ممانعت، قاتل پر قصاص کو واجب کرنا، ناجائز طریقوں سے لوگوں کا مال کھانے کی ممانعت، شراب، جوئے اور سود کی حرمت، اَیام حیض میں عمل اِزدواج کی ممانعت، عورتوں سے عمل معکوس کرنے کی تحریم کو بھی بیان کیا گیا ہے۔
سورۃ البقرہ کے خلاصۃً دوحصے بیان کیے گئے ہیں : پہلا حصہ آیات ۱تا۱۵۲(رکوع ۱تا۱۸) پر مشتمل ہے جس میں خطاب کا رخ سابقہ اُمت مسلمہ بنی اسرائیل کی طرف ہے۔ اور دوسرا حصہ آیات ۱۵۳ تا ۲۸۶(رکوع ۱۹تا۴۰) پر مشتمل ہے جس میں موجودہ اُمت مسلمہ یعنی مسلمانوں سے خطاب ہے۔
قرآن کے اعجاز کو بتلانے اور اس کی مثل لانے سے مخالفین کا عجز ظاہر کرنے کے لیے اس کی ابتدا حروفِ مقطعات سے ہوئی ہے کہ یہی وہ حروف ہیں جنھیں جوڑ کر قرآن بنایاگیا ہے، اگر قرآن واقعی انسانی کاوش ہے تو تم بھی ان حروف کی ترکیب سے قرآن جیسا کلام بنا ڈالو، پورا قرآن نہیں ، تو قرآن جیسی کوئی چھوٹی سے چھوٹی سورت ہی سہی، تمہارے اس کارنامے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ -معاذ اللہ- محمد عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جھوٹا ثابت کرنے کے لیے تمہیں نہ پروپیگنڈا کرنا پڑے گا، نہ مالی وسائل
استعمال کرنے پڑیں گے، نہ جنگ کی آگ میں اپنے بیٹوں اور بھائیوں کو جھونکنا پڑے گا؛ لیکن اس چیلنج کو نہ کل کے منکرین نے قبول کیا اور نہ آج کے منکرین قبول کرنے کے لیے تیار ہیں ۔نیز حروفِ مقطعات سے کلامِ الٰہی کا آغاز کرکے دراصل یہ پیغام دیاگیا ہے کہ قرآنی علوم ومعارف سے اِستفادہ کے لیے ضروری ہے کہ انسان پہلے اپنی جہالت اورکم علمی کا اِعتراف اور علمی پندار کی نفی کرے۔
اس کے بعد قرآن کوشک وشبہہ سے بالاتر کتاب ہونے کا اِعزاز بخشنے کے بعد بتایاگیا کہ یہ اللہ سے ڈرنے والوں کے لیے کتاب ہدایت ہے؛ لیکن یہ ہدایت ان لوگوں کے کام نہیں آتی جن میں ہدایت قبول کرنے کی صلاحیت ہی نہیں ہے،وہ تو گونگوں اور بہروں کی طرح محروم ہی رہتے ہیں ۔
بلاشبہہ قرآنِ حکیم علم اور معلومات کا وسیع خزانہ ہے۔ اس میں سائنس، تاریخ، جغرافیہ، فلسفہ، نفسیات، معاشیات، سیاست، معاشرت غرض ہر شعبۂ حیات وکائنات کے بارے میں معلومات ہیں ؛ لیکن قرآن حکیم محض معلومات کی کتاب نہیں بلکہ یہ نصابِ ہدایت ہے۔ یہی کتاب راہ نمائی کرتی ہے اس راہ کی طرف جس میں دنیاوی امن وسکون بھی ہے اور اخروی راحت ولذت بھی۔
دوسری آیت ایسے کامیاب بندوں کی پانچ صفات ذکر کی گئی ہیں جنھیں قرآن حکیم سے ہدایت نصیب ہوتی ہے۔ پہلی صفت یہ ہے کہ وہ غیب پر ایمان رکھتے یعنی بن دیکھے مانتے ہیں ، یعنی وہ ہماری حواس خمسہ کی پہنچ سے دور اور سرحد ادراک سے پرے ہیں ۔ گویا مادہ پرستی، عقل پرستی اور ظاہرپرستی کی نفی ہدایت قرآنی کے حصول کے لیے شرطِ اولین ہے۔
دوسری صفت یہ ہے کہ وہ اللہ کی مسلسل یاد کے لیے نماز قائم کرتے ہیں ۔ تیسری صفت یہ ہے کہ وہ دل سے دنیا کی محبت دور کرنے کے لیے اللہ کی راہ میں مال خرچ کرتے
ہیں ۔ چوتھی صفت یہ ہے کہ وہ تعصبات سے بالا تر ہوکر قرآن کے ساتھ سابقہ آسمانی کتابوں پر بھی ایمان رکھتے ہیں ۔ اور آخری صفت یہ ہے کہ وہ آخرت کی بازپرس پر پورا پورا یقین رکھتے ہیں ۔
مکہ کے کفار ومشرکین قرآن کے کلام اللہ ہونے کا انکار کرتے تھے اور یہ کہتے تھے کہ یہ نبیِ کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام کا اپنا بنایا ہوا کلام ہے، چنانچہ سورۂ بقرہ کی آیات بائیس اورتیئس میں ایسے تمام معاندین اور منکرین کو چیلنج کیا گیا کہ اگر تمہیں قرآن کے کلام اللہ ہونے میں شک ہے، اورتمہیں اپنی فصاحت وبلاغت پر بڑا ناز ہے ،تو تم سب مل کر اس جیسا کلام بنا کر لے آؤ؛ مگر تاریخ میں ہمیں ایسا کوئی حوالہ نہیں ملتا کہ قرآن حکیم کے اِس چیلنج کو کسی دور میں قبول کیا گیا ہو۔ چنانچہ قرآن نے فیصلہ کن انداز میں اعلان فرمادیا کہ تم یہ کام نہ آج کرسکے ہواور نہ صبح قیامت تک کرسکوگے۔
اِبتدائی بیس آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے انسان کی تین قسمیں بیان کی ہیں : مومن، کافر، منافق۔ اہل ایمان کی نمایاں صفات پانچ ہیں اور یہ وہ خوش قسمت لوگ ہیں جو اپنی زندگیوں میں انقلابی تبدیلیاں لانے کے لیے اپنے مالی و جسمانی اعمال کو قرآنی نظام کے تابع لانے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں ۔ یہ لوگ قرآن اور اس سے پہلی آسمانی کتابوں پر پختہ یقین رکھتے ہیں ۔
دوسری قسم ان لوگوں کی ہے جو کافر ہیں وہ اپنی زندگی کی اصلاح اور اس میں قرآنی نظام کے مطابق تبدیلی کے لیے بالکل تیار نہیں ہیں ۔ تیسری قسم ان خطرناک لوگوں کی ہے جو دلی طورپر قرآنی نظام کے منکر ہیں ؛ مگر ان کی زبانیں ان کے مفادات کے گرد گھومتی ہیں ۔ قرآن کریم کوماننے میں اگر کوئی مفاد ہے تو اسے تسلیم کرنے میں دیرنہیں لگاتے اوراگراس سے مفادات پر چوٹ پڑتی ہے تو اس کا اِنکار کرنے میں بھی دیر نہیں لگاتے، ان کے دل و زبان میں مطابقت نہیں ہے، اسے منافقت کہتے ہیں ۔ منافقت کے ذریعہ
انسانوں کو تو دھوکہ دیا جاسکتاہے مگر دلوں کے بھید جاننے والے اللہ رب العزت کو دھوکہ دینا کبھی ممکن نہیں ہے۔
یہاں قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کا تذکرہ چار آیات میں ، کفار کا دو آیات اور منافقوں کا تیرہ آیات میں فرمایاہے۔ ان تیرہ آیات میں منافقوں کے مندرجہ ذیل بارہ غلیظ اوصاف بیان ہوئے ہیں :جھوٹ، دھوکہ، عدم شعور، قلبی بیماریاں (حسد، تکبراور حرص وغیرہ) مکروفریب، سفاہت، احکام الٰہی کا مذاق، زمین میں فتنہ وفساد، جہالت، ضلالت، تذبذب، اور اہل ایمان کا تمسخر۔
اب مسلمانوں کو اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھنا چاہیے کہ ان مذکورہ منافقانہ بیماریوں میں سے کوئی بیماری تو اس کے اندر نہیں پاجاتی!۔
اکیسویں آیت کے بعد عالم اِنسانیت سے اولین خطاب کیا گیا اور ایک وحدہٗ لاشریک رب کی عبادت کا حکم دیاگیا۔ پھر توحید باری تعالیٰ پر کائناتی شواہد کوبطورِ دلیل پیش کیاگیاہے جس میں انسان کو عدم سے وجودبخشنا اور اس کی زندگی کی گزربسر کے لیے آسمان وزمین کی تخلیق اور بارش اور سبزیوں اور پھلوں کی پیدایش کا تذکرہ ہے۔ آیت نمبر۲۳تا۲۴ میں قرآن کریم کے کلام الٰہی ہونے کی عقلی دلیل دی گئی ہے کہ اگر تم اسے بشر کا کلام سمجھتے ہوتو تم بھی بشر ہو ایساکلام بناکر دکھادو؛ ورنہ جہنم کاایندھن بننے کے لیے تیار ہوجائو۔
اس کے بعد قرآنی نظام کے منکرین کے لیے جہنم کے بدترین عقوبت خانہ کی سزااور اس کے ماننے والوں کے لیے جنت کی بہترین نعمتوں اور پھلوں کے انعام کاتذکرہ ہے۔ قرآن‘ کتاب ہدایت ہے انسانی ہدایت ورہنمائی کے لیے کوئی بھی اسلوبِ بیان اپناسکتا ہے اور اس مقصد کے حصول کے لیے مکھی یا مچھر یا کسی دوسرے چھوٹے یا بڑے جانور کی مثال دے سکتاہے، مسئلہ مثال کا نہیں بلکہ اس سے حاصل ہونے والے مقصد کاہے۔
اس کے بعد کی آیات فلسفہ قرآنی کو پیش کررہی ہیں جن میں اللہ تعالیٰ نے انسان اور کائنات کے بارے میں ذہن انسانی میں پیدا ہونے والے ان سوالات کا جواب دیا ہے جن سے فلسفہ بحث کرتا ہے۔ انسان کی تخلیق کے حوالے سے فرمایاگیا کہ اللہ تعالیٰ نے پہلے ہر انسان کی روح پیدا کی، پھر اسے موت کی نیند سلادیا۔ پھر زندہ کرکے جسم کے ساتھ دنیا میں بھیجا۔ پھر وہ اسے دوبارہ موت دے گااور پھر دوبارہ زندہ کرکے اپنی بارگاہ میں جواب دہی کے لیے حاضر کرے گا۔ اسی طرح یہ کائنات بھی اللہ تعالیٰ نے بنائی ہے، پھر اسے انسان کے لیے مسخر کردیا تاکہ وہ اس سے استفادہ حاصل کرسکے۔
آیت نمبر۳۰ تا ۳۹ میں ہے کہ فرشتوں کے سامنے اللہ تعالیٰ نے اعلان فرمایا کہ میں آدم کو زمین میں اپنا خلیفہ بنارہا ہوں ۔ فرشتوں نے اپنی فہم کے مطابق اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں یہ عرض کیا کہ بنی آدم زمین میں فساد کریں گے، خون ریزی کریں گے اور اے اللہ! ہم ہمہ وقت تیری تسبیح وتقدیس میں مشغول رہتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میں جن اسرار اور حکمتوں کوجانتا ہوں تم نہیں جانتے۔ اور پھر نعمتِ علم کے ذریعے آدم علیہ السلام کی فضیلت اور برتری کو فرشتوں پر ثابت کیا۔
ازاں بعد فرشتوں کو حکم ہوا کہ آدم کو سجدہ کریں ، چنانچہ تمام ملائکہ نے حکمِ ربانی کی بلا چوں وچرا تعمیل کی؛ مگر ابلیس لعین نے آدم علیہ السلام کی فضیلت تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ اس تکبر پر اللہ تعالیٰ نے ابلیس کو ذلیل و خوار کر کے اپنی رحمت سے دور فرمادیا ۔ ابلیس نے اس موقع پر اس عزم کا اِظہار کیاکہ وہ رہتی دنیا تک آدم علیہ الصلوٰۃ والسلام اور ان کی اولاد کو راہ ِہدایت سے بھٹکانے کے لیے سرگرم عمل رہے گا ۔
یہ قصہ حق وباطل، اورخیروشر کے درمیان دائمی کشمکش کی نشان دہی کرتا ہے۔ اس واقعے سے حضرت آدم علیہ السلام کی عظمت شان مہرنیم روز کی طرح نکھر کر سامنے آجاتی ہے۔ انھیں خلافت ارضی سے نوازا گیا، ایسے علم سے سرفرازی بخشی گئی جن سے فرشتے
محروم تھے، ملائکہ کو ان کے سامنے سجدہ ریز ہونے کا حکم دیاگیا، منصب خلافت پر فائز ہونے کی وجہ سے بنو آدم اس امر کے پابند ہیں کہ وہ زمین پر اللہ کے احکام کا نفاذ کریں اور دنیا کا نظام حسب منشاے الٰہی چلائیں ۔
پھر آدم وحوا علیہم السلام کے جنت میں داخل کرنے اور وہاں ان کے لیے اللہ تعالی کی تمام نعمتوں سے استفادے کی اجازت کے ساتھ ساتھ ایک درخت کے قریب نہ جانے کی پابندی کا ذکر ہے۔ اسی کے ساتھ ابلیس لعین کے آدم علیہ السلام کو سجدہ نہ کرنے، حضرت آدم وحوا علیہم السلام کو بہکانے اور جنت سے نکالے جانے کا بیان ہے۔اور پھر آدم علیہ السلام کوتوبہ کے کلمات اِلقا کیے جانے، اوراِن کلمات سے ان کی توبہ نیز توبہ کی قبولیت کا ذکر ہے۔
حضرت آدم وحوا علیہما السلام کا قصہ جو ابلیس لعین کے ساتھ پیش آیا ، حقیقت میں یہ ساری انسانیت اور اس دنیا کی ابتدا سے انتہا تک کا قصہ ہے۔ یہ قصہ حق و باطل اور خیر وشر کے درمیان دائمی کشمکش کی نشان دہی کرتا ہے۔
یہ قصہ حضرت آدم کی عظمت شان بتاتا ہے، انھیں خلافت ارضی عطا کی گئی، ایسے علم سے نوازا گیا جس سے فرشتوں محروم تھے۔ ملائکہ کو ان کے سامنے سجدہ ریز ہونے کا حکم دیاگیا۔ منصب خلافت پر فائز ہونے کی وجہ سے بنو آدم اس امر کے پابند ہیں کہ وہ زمین پر اللہ تعالیٰ کے احکام کو نافذ کریں اور دنیا کا نظام ویسے چلائیں جیسے اللہ جل مجدہ چاہتا ہے۔
اس کے بعد متعدد آیات میں بنی اسرائیل پر کیے گئے انعامات اور ان کو دیے گئے عذاب کا تذکرہ شرح وبسط کے ساتھ شروع ہوتا ہے۔ پہلا پارہ تقریباً پورا ہی انھیں کے ذکر پر مشتمل ہے۔ اسرائیل حضرت یعقوب کا لقب تھا جو حضرت ابراہیم کے پوتے اور حضرت اسحق کے بیٹے تھے۔ اسرائیل کے معنی عبداللہ کے ہوتے ہیں ،ا ن کی اولاد بنی
اسرائیل کہلاتی ہے۔ ان میں ہزاروں کے حساب سے انبیاومرسلین تشریف لائے۔ اب ان کے لیے امتحان ہوا کہ وہ پیغمبرآخر الزمان محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لائیں جو حضرت ابراہیم ہی کے دوسرے بیٹے اسماعیل علیہ السلام کی نسل سے ہیں ۔
واضح رہے کہ بنی اسرائیل دنیا کی ایک منتخب قوم تھی، انبیا کی اولاد تھی، اللہ تعالیٰ نے انھیں اس دور کی سیاسی اور مذہبی قیادت وسیادت سے نوازا ہواتھا مگر ان کی نااہلی اور اپنے منصب کے منافی حرکات کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے انھیں معزول کرنے کا فیصلہ کرلیا کہ اس منصب کے اہل اور حقیقی وارث اُمت محمدیہ کی شکل میں اس سرزمین پرتیار ہوچکے ہیں ۔ تقریباً آدھے سیپارے پر محیط اس قوم کے جرائم اور عاداتِ بد کی ایک طویل فہرست ہے جو چالیس نکات پرمشتمل ہے ۔ یہ وہ ’فردِ جرم‘ ہے جو بنی اسرائیل کے اس منصب عالی سے معزولی کا سبب ہے؛ لہٰذا ہمیں بڑے غور سے انھیں ملاحظہ کرنا چاہیے کہ کہیں ان میں سے کوئی خوے بد ہم میں بھی تو نہیں پائی جاتی!۔
پہلے یہ بتایاگیا کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو بے شمار ظاہری وباطنی، دینی ودنیاوی نعمتیں عطا فرمائیں مثلاً ان کے اندر کثرت سے انبیا پیدا فرمائے، انھیں دنیوی خوش حالی بخشی، عقیدۂ توحید اور ایمان کی نعمت سے مالامال کیا، فرعون کے خونیں مظالم سے نجات دی، انھوں نے موسیٰ علیہ السلام کی قیادت میں مصر سے ہجرت کی، فرعون نے ان کا تعاقب کیا تو سمندر میں ان کے لیے راستے بنادیے گئے اوران پر ظلم وستم ڈھانے والے کو ان کی نظروں کے سامنے اس کے لائو لشکر سمیت غرق آب کردیا۔ صحراے سینا میں وہ بے سروسامانی کے عالم میں تھے، ان کے کھانے کے لیے آسمان سے من وسلویٰ اُتارا، سایہ کے لیے ٹھنڈے بادلوں کا انتظام کیا، پینے کے لیے پانی کی تلاش ہوئی تو پتھر سے بارہ شفاف چشمے جاری فرمادیے۔
پھر انھیں سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہونے والی کتاب پر ایمان لانے
میں سبقت لے جانے کی دعوت دی گئی اور خبردار کیاگیا کہ وہ دنیا کے حقیر مفادات کے عوض اللہ کی آیات کا سودا نہ کریں ۔ انھیں ایفاے عہد، اللہ سے ڈرنے، نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ ادا کرنے کی تلقین کی گئی۔ حق وباطل کی آمیزش، حق کو چھپانے اور قول وفعل کے تضاد سے منع کیاگیا ہے۔ احکاماتِ خداوندی پر چلنے کے لیے نماز اور استقامت سے اللہ کی مدد حاصل کرنے کی نصیحت کی گئی ہے۔
مگر بنی اسرائیل ان ذمہ داریوں کو پوراکرنے سے قاصر رہے، اور زمین پرفساد پھیلانے سے باز نہ آئے، اور اللہ کی عظیم الشان نعمتوں کے مقابلہ میں لہسن پیاز اور دال روٹی کا مطالبہ کرکے ذہنی پستی اور دیوالیہ پن کا مظاہرہ کیا۔نیز اللہ کے احکام کا کفر کرنے اور انبیا علیہم السلام (اپنے مذہبی پیشوائوں ) کوقتل کرنے کے عظیم جرم کے مرتکب ہوئے جس پر انھیں ذلت ورسوائی اور غضب خداوندی کا سامنا کرنا پڑا۔
قرآنی ضابطہ ہے کہ اللہ کے نزدیک کامیابی قومی یا مذہبی تعصب کی بنیاد پرنہیں بلکہ ایمان اور عمل صالح کی بنیادپر ملتی ہے، خوف اور غم سے نجات حاصل ہوتی ہے، ان کے سروں پر پہاڑ بلند کرکے تجدید عہد کرایاگیا مگر انھوں نے اس کی پاس داری نہ کی ۔ دل جمعی اور یکسوئی کے ساتھ عبادت کرنے کے لیے ہفتہ کے دن کی چھٹی دی گئی مگر اس کی پابندی نہ کرنے پر عبرت ناک انجام کے مستحق ٹھہرے اور ان کی شکلیں بگاڑ کر انھیں ذلیل وقابل نفرت بندر بنادیاگیا۔
بنی اسرائیل کے ایک مالدار شخص کو اس کے بھتیجے نے مالِ وراثت ہتھیانے کی غرض سے قتل کردیا، پھر رات کی تاریکی میں نعش اُٹھاکر کسی دوسرے کے دروازے پر ڈال دی اور اس پر قتل کا دعویٰ کردیا، قریب تھا کہ مدعی اور مدعی ٰ علیہ کے خاندان ایک دوسرے پر ہتھیار اُٹھا لیتے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ذریعہ انھیں گائے ذبح کرنے اور اس کے گوشت کا کچھ حصہ اس مقتول کے جسم کے ساتھ لگانے کا حکم دیا، بڑی پس وپیش کے بعد یہ
لوگ ذبح پر آمادہ ہوئے ۔خیر! ایسا کرنے سے مقتول زندہ ہوکر اُٹھ بیٹھا اور اس نے اپنے قاتل کی نشان دہی کردی۔ اس طرح اصل مجرم گرفت میں آگیا اور سزا کا مستحق قرار پایا اور کسی بے گناہ کی ناجائز خوں ریزی سے وہ لوگ بچ گئے۔
اتفاق سے انہی دنوں بنی اسرائیل کا ایک گروہ مرنے کے بعد کی زندگی کا انکار بھی کررہا تھا، مقتول کے زندہ ہونے سے نہ صرف یہ کہ قاتل کی نشان دہی ہوگئی بلکہ بعث بعد الموت پر ایک حجت بھی قائم ہوگئی۔ علاوہ بریں مصریوں کے ساتھ طویل عرصہ تک رہنے کی وجہ سے بنی اسرائیل کے دل میں گائے کی جو عقیدت ومحبت رچ بس گئی تھی، گائے ذبح کرنے کا حکم دے کر اس کی تردید اور توہین بھی کردی گئی۔
عقل ودانش کے نام پر کلام الٰہی میں تحریف اور ردّوبدل کی بدترین عادت کے مریض تھے۔ اپنے مفادات اور دنیا کی عارضی منفعت کے لیے اللہ کی آیتوں کوبیچ ڈالتے تھے اور اس خوش فہمی میں مبتلاتھے کہ ہم جو چاہیں کریں ہمیں آخرت میں کوئی عذاب نہیں ہوگا اور ہم جہنم میں نہیں جائیں گے۔ قرآن کریم نے ضابطہ بیان کردیا کہ جو بھی جرائم اور گناہوں کا مرتکب ہوگا وہ جہنم سے بچ نہیں سکے گا اور ایمان و اعمال صالحہ والے ہی جنتوں کے حقدار ہوں گے۔
اگلی آیات میں بنی اسرائیل کو اللہ کے ساتھ اپنے تعلق کو جانچنے کا ایک معیار دیاگیا، فرمایاگیا کہ اگر تم واقعی اللہ کے محبوب ہو اور آخرت میں تمہیں اعزازواکرام سے نوازا جائے گا تو موت کی تمنا کرو کہ جلد از جلد اپنے محبوبِ یعنی خالق حقیقی سے جاملو۔ فرمایاکہ بنی اسرائیل اپنے سیاہ کرتوت کی وجہ سے کبھی بھی موت کی خواہش نہ کریں گے۔ آج ہمیں بھی اپنا محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا اپنے اعمال کی بنیاد پر ہم اللہ کے سامنے حاضر ہونے اورجواب دہی کے لیے تیار ہیں !۔
بنی اسرائیل جبریل علیہ السلام کے مخالف تھے کہ وہ عذاب اورسزاکے احکام لے
کرکیوں آتے ہیں ؟ وہ لوگ یہ سمجھنے سے قاصر رہے کہ جبریل تو ایک قاصد اور نمائندہ ہے۔ جزایا سزا کے احکام اللہ تعالیٰ نازل فرماتاہے۔ کسی کے نمائندہ کی مخالفت در اصل اس کی مخالفت شمار ہوتی ہے؛ اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایاکہ جبریل تو میرے حکم سے قرآن کریم نازل کررہے ہیں ؛ لہٰذا جبرئیل کی دشمنی درحقیقت اللہ ، اس کے رسول اور تمام فرشتوں کے ساتھ دشمنی کے مترادف ہے۔
یہودیوں کی عادات بد میں جادوگروں کی اطاعت اور ان کی اتباع بھی تھی۔ اس کی مذمت آیت ۱۰۲میں کی گئی ہے۔ آیت نمبر۱۰۴ میں واضح طور پر ارشاد ہوا کہ اے اہلِ ایمان! (جب تمہیں نبی کی کوئی بات سمجھ میں نہ آئے ، تو دوبارہ بیان کے لیے) راعِنا (یعنی ہماری رعایت کیجیے)نہ کہو(کیوں کہ اسے یہود اور منافقین اہانت کے معنی میں بھی استعمال کرتے ہیں ؛ لہٰذا یوں کہو کہ) یارسول اللہ! ہم پر توجہ فرمائیے اور (اس سے بھی زیادہ ادب کا تقاضا یہ ہے کہ پہلے ہی نبی کی بات کو) خوب توجہ سے سنو۔ یعنی مومنوں کو رسول اللہ ﷺ کی شان میں ایسا ذومعنی کلمہ استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہے جس کو کوئی بدفطرت شخص اشار ، کنایہ یا صریح اہانت کے معنی میں استعمال کر سکتا ہو۔
مسجدیں اللہ کے گھر ہیں ان میں اللہ کی بات کرنے سے روکناظلم کی بدترین مثال ہے۔ ایسی حرکت کے مرتکب اَفراد دنیا میں بھی ذلیل وخوار ہوں گے اور آخرت میں بھی بدترین عذاب کے مستحق ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ کے لیے اولاد کے عقیدے کی مذمت آیت ۱۱۶ میں ہے اور اللہ کی قدرت کا بیان ہے۔ یہودونصاریٰ کے تعصب کی بدترین شکل کو بیان کیا کہ اس وقت تک مسلمانوں سے خوش نہیں ہوں گے جب تک مسلمان اسلام سے دست بردار ہوکر یہودیت یا عیسائیت کو اختیار نہ کریں ۔ آسمانی کتاب کی تلاوت کا حق ادا کرنے کی تلقین کے ساتھ بنی اسرائیل پر انعامات کا ایک مرتبہ پھر تذکرہ اور یومِ احتساب کی یاد تازہ کرکے یہودیوں کے بارے میں گفتگو پوری کردی۔
آیت۱۲۲ پر پہنچ کر بنی اسرائیل سے کلام کااختتام ہورہا ہے۔ ان آیات میں ایک بار پھر انھیں اللہ کی عطا کردہ نعمتوں کی یاد دہانی کرائی جارہی ہے اور ایسے چور دروازوں کی نفی کی جارہی ہے جن کے ذریعہ انسان بے عملی کے باوجود اپنے جرائم کی سزا سے محفوظ رہنے کی جھوٹی امید رکھتا ہے۔
اس کے بعد حضرتِ ابراہیم علیہ السلام کے امتحانات کی داستان بیان کی گئی ہے۔ پھر منصبِ امامت پر فائز کیے جانے،ان کی آزمائش وابتلا اور اس میں کامیابی کی شہادت کے ساتھ ہی حضرت ابراہیم واسماعیل علیہما السلام کے بیت اللہ کو تعمیر کرنے کا ذکر ہے نیز اس امر کا بیان بھی کہ تعمیر بیت اللہ کے بعد انہوں نے اللہ تعالی کی بارگاہ میں یہ دعا کی: اے ہمارے رب! اِن (اہلِ مکہ) میں ، اِنہی میں ایک عظیم رسول کو مبعوث فرما، جو ان لوگوں پر تیری آیات کی تلاوت کرے اور ان کو کتاب وحکمت کی تعلیم دے اور ان کے نفوس کی اصلاح وتزکیہ کرے۔ اولاد کے حوالے سے انسان کی تمنائیں اس کی دین سے وابستگی کا اظہار ہوتی ہیں ۔
اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمایاکرتے تھے کہ میں حضرت عیسیٰ کی بشارت اور حضرت ابراہیم کی دعا کا ثمرہ (نتیجہ) ہوں ۔ اس کے بعد اس سورت میں اولادِ ابراہیم حضرت اسماعیل، حضرتِ اسحاق ، حضرت یعقوب اور ان کی اولاد حضرت موسیٰ وعیسیٰ اور اجمالی طور پر دیگر انبیاے کرام علیہم السلام کا ذکر ہے۔
نیزیہ بھی کہ اہلِ ایمان سب انبیا پر ایمان لاتے ہیں اورایمان کے لانے میں رسولوں کے درمیان کوئی تفریق نہیں کرتے اور یہ بھی کہ حضرات ابراہیم ، اسماعیل ، اسحاق، یعقوب اور ان کی اولاد یہودی ونصرانی نہیں تھے بلکہ سب کے سب ایک ہی دینِ اسلام کے علمبردار اور داعی تھے۔
حضرت ابراہیم خلیل اللہ کے مآثرومفاخر بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
کہ ملت ابراہیمی سے وہی شخص اعراض کرسکتا ہے جو شقی، احمق اور خواہشات کا غلام ہو، یہودو نصاریٰ واقعی ایسے تھے، وہ حضرت ابراہیم کی طرف اپنی نسبت تو کرتے تھے مگر ان کا زعم باطل یہ تھا کہ نجات حنیفیت کی اتباع میں نہیں ہے بلکہ یہودیت اور نصرانیت کی اتباع میں ہے۔
چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حکم دیا کہ آپ انھیں حنیفیت یعنی دین اسلام کی طرف دعوت دیں جو کہ تمام انبیا ومرسلین کا دین ہے، اگر وہ آپ کی دعوت قبول کرلیں تو ہدایت پاجائیں گے اور اگر قبول نہ کریں تو ان کا انکار اور گمراہی کسی دلیل کی بنا پر نہیں ہوگی بلکہ محض ضد اور عناد کی بنا پر ہوگی توآپ انھیں عناد کی گندگی میں پڑا رہنے دیں ، اللہ ان سے نمٹ لے گا۔
پھر اس پیغام پر پہلا پارہ ختم ہوجاتا ہے کہ ’گزشتہ اُمتوں کے لوگوں کا کرادھرااُن کے ساتھ ہوگا اور جو تم کمائوگے وہ تمہارے لیے ہوگا، اور تم سے ان کے اعمال کی نسبت نہیں پوچھا جائے‘۔ گویا آخرت میں نجات کے لیے نیک لوگوں سے نسلی تعلق نہیں بلکہ اپنا عمل کام آئے گا۔ یہودی یا عیسائی ہونے سے ہدایت نہیں ملے گی بلکہ ہدایت کا راستہ یہ ہے کہ ملت ابراہیم کی پیروی کی جائے۔
یاد رکھیں کہ اللہ کے نزدیک اسی کا ایمان قابل قبول ہے جو تمام انبیا پر ایمان لائے۔ کسی ایک نبی کا انکار بھی انسان کو کافر بنا دیا کرتا ہے؛ لہٰذا ہر کوئی اپنی قبر کو روشن کرنے کی فکر کرے کہ اس کے اپنے اچھے اعمال ہی اس کی لحد کو فروزاں رکھیں گے۔
دعا ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہمیں پہلے پارے میں بیان کردہ واقعات کوسمجھنے، مومنین کی صفاتِ محمودہ سے متصف ہونے اور منافقانہ خصلتوں سے باز آنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔ آمین یارب العالمین بجاہ صفوۃ الانبیاء والمرسلین
No comments:
Post a Comment
امن کا پیغام پڑھنے والوں کےلیے اک اچھی کاوش ثابت ہوگا انشآء اللہ اس میں آرٹیکل
شاعری اور بہت کچھ مفید ملے گاقرآن اوراحادیث کے متعلق