اسلام میں عورت کا مقام
قبل از اسلام عرب میں عورت کی حیثیت
دنیا کے مختلف معاشروں میں بنیادی خرابی اس امر سے پیدا ہوئی کہ عورت اور مرد کے درمیان تخلیقی طور پر امتیاز رکھا گیا، اور عورت کو ہمیشہ کم تر اور کم اہم سمجھا گیا جبکہ مرد برتر اور اہم حیثیت کا حامل رہا۔ یہی وجہ تھی کہ قبل از اسلام عورت کو اس کے بنیادی انسانی حقوق سے بھی محروم رکھا گیا، یہ صنف بھیڑ بکریوں کی طرح بکتی تھی، ظلم کی انتہا یہ تھی کہ لڑکی کو پیدا ہوتے ہی زندہ درگور کر دیا جاتا تھا، کیونکہ اس کی پیدائش نہ صرف منحوس تصور کی جاتی تھی، بلکہ باعث ذلت سمجھی جاتی تھی۔ قرآن مجید نے اس بھیانک منظر کی یوں عکاسی کی ہے۔
وَ اِذَا بُشِّرَ اَحَدُهُمْ بِالْاُنْثٰى ظَلَّ وَجْهُهٗ مُسْوَدًّا وَّ هُوَ كَظِیْمٌۚ ۵۸ یَتَوَارٰى مِنَ الْقَوْمِ مِنْ سُوْٓءِ مَا بُشِّرَ بِهٖ١ؕ اَیُمْسِكُهٗ عَلٰى هُوْنٍ اَمْ یَدُسُّهٗ فِی التُّرَابِ١ؕ اَلَا سَآءَ مَا یَحْكُمُوْنَ ۵۹ ۲؎
اور جب ان میں سے کسی کو بیٹی کے پیدا ہونے کی خبر ملتی ہے تو اس کا چہرہ غم کے سبب کالا پڑ جاتا ہے، اور اس کے دل کو دیکھو تو وہ اندوہناک ہو جاتا ہے، اور اس جز کی وجہ سے وہ لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے اور سوچتا ہے کہ آیا ذلت برداشت کر کے لڑکی کو زندہ رہنے دے یا زمیں میں دفنا دے۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ ایک طرف تو بعض عربوں کے ہاں یہ عقیدہ تھا کہ فرشتے خدا کی بیٹیاں ہیں اور ان کی سفارش سے مشکلات حل ہوتی ہیں ، تو دوسری طرف وہ انہی بیٹیوں سے نجات حاصل کرنے کے درپے رہتے اور انہیں شدید ذہنی، اخلاقی اور جسمانی دباؤ میں رکھتے، قرآن حکیم نے ان کے اس رویے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا۔
دارمی کی ایک روایت ہے جس میں ایک شخص نے بتایا کہ وہ زمانہ جاہلیت میں کس طرح اپنی بیٹیوں کو زندہ دفن کرتے تھے۔ روایت ملاحظہ ہو۔
وفین فرماتے ہیں رسول اﷲ کے حضور ایک شخص عرض گزار ہوا کہ اسے اللہ کے رسول جاہلیت میں ہمارے دینی مشاغل بتوں کی پوجا اور اولاد کو اپنے ہاتھوں قتل کرنا ہماری قومی وجاہت تھی، میری اپنی یہ کہانی ہے کہ میری ایک بیٹی تھی، جب میں اس کو بُلاتا تو دوڑ کر میرے پاس آتی، ایک دن وہ میرے بلانے پر خوش خوش دوڑی آئی، میں آگے بڑھا اور وہ میرے پیچھے چلی آئی، میں آگے بڑھتا چلا گیا، جب میں ایک کنویں کے پاس پہنچا جو میرے گھر سے زیادہ دور نہ تھا، اور لڑکی اس کے قریب پہنچی تو میں نے اس کا ہاتھ پکڑ کر کنوئیں میں ڈال دیا، وہ مجھے ابا ابا کہہ کر پکارتی رہی اور یہی اس کی زندگی کی آخری پکار تھی، رسول اللہ اس پُر درد افسانے کو سن کر آنسو ضبط نہ کر سکے، ایک صحابی نے اس شخص کو ملامت کی کہ تم نے حضور صلّی اللہ علیہ وسلّم کو غمگین کر دیا، فرمایا اس کو چھوڑ دو کہ جو مصیبت اس پر پڑی ہے وہ اس کا علاج پوچھنےآیاہے-اپنا قصہ پھر سناؤ، اس نے دوبارہ پھر بیان کیا تو حضور صلّی اللہ علیہ وسلّم کی یہ حالت ہوئی کہ روتے روتے ریش مبارک تر ہو گئی پھر فرمایا جاؤ کہ جاہلیت کے گناہ اسلام کے بعد معاف ہو گئے اب نئے سرے سے اپنا عمل شروع کرو۔
قبیلہ بنی تمیم کے رئیس قیس بن عاصم جب اسلام لائے تو اُنہوں نے بھی لڑکیوں کو زندہ درگور کرنے کا اپنا واقعہ سنایا۔ تفسیرابن جریر میں ہے۔
عن قتادہ، قال: جاء قیس بن عاصم التمیمی إلی النبیؐ فقال: إني وأدت ثمانی بنات فی الجاھلیۃ، قال، ’’فأعتیق عن کل واحدۃٍ برنۃ‘‘۔۶؎
قتادہ روایت کرتے ہیں کہ قیس بن عاصم حضور صلّی اللہ علیہ وسلّم کے پاس آئے اور کہا کہ میں نے اپنے ہاتھ سے آٹھ لڑکیاں زندہ دفن کی ہیں زمانہ جاہلیت میں ،حضور صلّی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا ہر لڑکی کے کفارہ میں ایک اونٹ قربانی کرو۔
عربوں میں مرد کے لیے عورتوں کی کوئی قید نہ تھی، بھڑ بکریوں کی طرح جتنی چاہتا، عورتوں کو شادی کے بندھن میں باندھ لیتا تھا۔ کتب احادیث میں ان اشخاص کا ذکر موجود ہے جو قبول اسلام سے پہلے چار سے زیادہ بیویاں رکھتے تھے۔ ان میں سے ایک واقعہ درج کیا جاتا ہے۔
عن حارث بن قیس قال: اسلمت وعندی ثمان نسوۃ، فذکرت ذلک للنبیؐ، فقال النبیؐ ’’اختر منھن اربما‘‘۔۷؎
حارث بن قیس کہتے ہیں کہ میں اسلام لایا تو میری آٹھ بیویاں تھیں ، میں نے حضور صلّی اللہ علیہ وسلّم سے اس کا ذکر کیا تو حضور صلّی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا ان میں سے چار کو اختیار کر لو۔
اسی طرح جامع ترمذی میں ہے کہ:
عن ابن عمر، غیلان بن سلمۃ الثقفی أسلم و لہ عشر نسوۃٍ فی الجاہلیۃ، فأ سلمن معہُ، فأمرہ النبی ان یتخیر اربعا منھن۔۸؎
حضرت عبداللہ ابن عمر کہتے ہیں کہ غیلان بن سلمہ ثقفی اسلام لائے تو دور جاہلیت کی اُن کے پاس دس بیویاں تھیں ۔ پس وہ بھی اسلام لے آئیں حضور صلّی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا کہ ان میں سے چار کو منتخب کر لو۔
’’عربوں میں عورتوں اور بچوں کو میراث سے ویسے ہی محروم رکھا جاتا تھا اور لوگوں کا نظریہ یہ تھا کہ میراث کا حق صرف ان مردوں کو پہنچتا ہے جو لڑنے اور کنبے کی حفاظت کرنے کے قابل ہوں ، اس کے علاوہ مرنے والوں کے وارثوں میں جو زیادہ طاقت ور اور با اثر ہوتا تھا وہ بلا تامل ساری میراث سمیٹ لیتا تھا۔‘‘ ۹؎
عرب میں عورت کو ذلیل کرنے اور اُسے تنگ کرنے کے لیے ایک طریقہ یہ بھی تھا کہ جب کوئی مرد اپنی بیوی کو گھر سے نکالنا چاہتا تو ایسے نکالتا کہ نہ اُسے طلاق یعنی آزادی دیتا اور نہ ہی گھر میں بحیثیت بیوی کے اپنے پاس رکھتا، جناب عبدالصمد صارم کے بقول:
عرب میں عورت ایک قابل استعمال شے سمجھی جاتی تھی، تعدد ازدواج کی کوئی حد مقرر نہ تھی، بعض شریر، عورتوں کو برسوں معلق کر کے رکھتے تھے، ترکہ میں عورت کا کوئی حق نہ تھا، وہ کسی چیز کی مالک نہ تھی۔۱۱؎
قرآن عظیم کی درج آیت ایسے ہی موقع کے بارے میں اتری ہے۔
فَلَا تَمِیْلُوْا کُلَّ الْمَیْلِ فَتَذَرُوْھَا کَالْمُعَلَّقَۃِ۔ ۱۲؎
اسے معلق نہ رکھو یا تو اچھی طرح حسنِ معاشرت کرو یا اچھی طرح رخصت کر دو۔
مستدرک حاکم میں بھی ایک روایت مذکورہ بالا رسم کے ثبوت میں ملتی ہے۔
عن عائشۃ قالت کان الرجل یطلق امرأتہ ماشاء ان یطلقھا وان طلقھا مائۃ او اکثر اذا ارتجعھا قبل ان تنقفی عدتھا حتی قال الرجل لا مراتہ واﷲ طلقھا مائۃ او اکثر اذا ارتجمھا قبل ان تنقفی عدتھا حتی قال الرجل لا امرأتہ واﷲ لا اطلقک فتبیني منی ولا آویک الی قالت وکیف ذاک قال اطلقک وکلما قاربت عدتک ان تنقضی ارتجعتک ثم اطلقک وافعل ذالک نشکت المرأۃ ذالک الی عائشہ۔۱۳؎
عرب معاشرے میں بلا شبہ بعض اوقات عورت کا کردار بڑی اہمیت کا حامل ہو جاتا تھا لیکن مجموعی طور پر وہ کبھی بھی حاکم یا مالکہ نہ بن سکتی تھی بلکہ اپنی زندگی کے سفر کا فیصلہ بھی خود نہ کر سکتی تھی، مولانا صفی الرحمن مبارکپوری نے اس حوالے سے خوبصورت عکاسی کی ہے لکھتے ہیں :
بسا اوقات عورت چاہتی تو قبائل کو صلح کے لیے اکٹھا کر دیتی اور چاہتی تو ا ن کے درمیان جنگ اور خونریزی کے شعلے بھڑکا دیتی، لیکن ان سب کے باوجود بلا نزاع مرد ہی کو خاندان کا سربارہ مانا جاتا تھا اور اس کی بات فیصلہ کن ہوا کرتی تھی……… عورت کو یہ حق نہ تھا کہ ان (اولیاء) کی ولایت کے بغیر اپنے طور پر اپنا نکاح کر لے۔۱۴؎
مملکت سبا، جو عرب کا ہی ایک حصہ اور ریاست تھی وہاں بھی عورتوں کی حیثیت ناگفتہ بہ تھی، ایک عورت کئی مردوں کے ساتھ شادی کرتی تھی اور اہل خانہ میں باہمی فسق و فجور کا بازار گرم رہتا تھا اور اپنی بہنوں اور بیٹیوں کے ساتھ بدکاری کرنے کا عام رواج تھا۔۱۵؎
ان کی جاہلانہ رسوم میں سے ایک رسم ایسی بھی تھی جس سے عورت کی بے بسی کے ساتھ ساتھ اُس پر بد اعتمادی کا کھُلا اظہار ہوتا ہے، وہ رسم یہ تھی کہ جب کوئی شخص سفر پر جاتا تو ایک دھاگا کسی درخت کی ٹہنی کے ساتھ باندھ دیتا یا اُس کے تنے کے اردگرد لپیٹ دیتا، جب سفر سے واپس آتا تو اُس دھاگے کو دیکھتا، اگر وہ صحیح سلامت ہوتا تو وہ سمجھتا کہ اس کی بیوی نے اس کی غیر حاضری میں کوئی خیانت نہیں کی اور اگر وہ اسے ٹوٹا ہوا یا کھُلا ہوا پاتا تو خیال کرتا کہ اُس کی بیوی نے اس کی غیر حاضری میں بدکاری کا ارتکاب کیا ہے، اس دھاگے کو ’’الرتم‘‘ کہا جاتا۔۱۶؎
No comments:
Post a Comment
امن کا پیغام پڑھنے والوں کےلیے اک اچھی کاوش ثابت ہوگا انشآء اللہ اس میں آرٹیکل
شاعری اور بہت کچھ مفید ملے گاقرآن اوراحادیث کے متعلق