The Message: بلند شخصیتیں

home jobs

بلند شخصیتیں

  • بلند شخصیتیں

مندرجہ ذیل نبیوں کے نام قرآن مجید میں مذکور ہیں۔ 25 انبیاء اور رسولوں کے نام  قرآن میں موجود ہیں۔
حضرت آدم علیہ السلام
حضرت ادریس علیہ السلام
حضرت نوح علیہ السلام
حضرت ھود علیہ السلام
حضرت صالح علیہ السلام
حضرت ابراہیم علیہ السلام
حضرت لوط علیہ السلام
حضرت اسماعیل علیہ السلام
حضرت اسحاق علیہ السلام
حضرت یعقوب علیہ السلام
حضرت یوسف علیہ السلام
حضرت ایوب علیہ السلام
حضرت شعيب علیہ السلام
حضرت موسیٰ علیہ السلام
حضرت ہارون علیہ السلام
حضرت ذو الکفل علیہ السلام
حضرت داؤد علیہ السلام
حضرت سليمان علیہ السلام
حضرت الیاس علیہ السلام
حضرت الیسع علیہ السلام
حضرت یونس علیہ السلام
حضرت زکریا علیہ السلام
حضرت یحییٰ علیہ السلام
حضرت عیسیٰ علیہ السلام
حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم




  • حضرت آدم علیہ السلام

آدم علیہ الصلاۃ والسلام اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ نبی تھے۔(ابن حبان)



جب اللہ تعالیٰ نے انہیں پیدا کرنا چاہا تو فرشتوں اور ابلیس سے کہا: میں کھنکھناتے ہوئے سیاہ اور سڑے ہوئے گارے سے ایک انسان بنانے والا ہوں۔ جب میں اسے ٹھیک طرح سے بنا کر مناسب شکل دے دوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو تم سب اس کے آگے سجدے میں گر پڑنا۔

 (الحجر: ۲۹۔۲۸۔و اعراف: ۱۲۔۱۱)


الغرض اللہ نے پوری زمین سے ایک مٹھی مٹی لی یہی وجہ ہے کہ آدم علیہ السلام کی اولاد میں کوئی گورا ہے، کوئی کالا ہے، کوئی سانوالا ہے، کوئی نرم ہے ، کوئی سخت ہے،، کوئی ناپاک ہے اور کوئی پاک ہے۔ 

(ترمذی، ابو داؤد)


پھر اللہ تعالیٰ نے اس مٹی کے خلاصے سے گارا تیار کیا۔ (مؤمنون:۱۲)

جب گارا سیاہ اور بدبودار ہوگیا اور اس سے کھن کھن کی آواز آنے لگی تو اللہ تعالیٰ نے اپنے دونوں ہاتھوں سے آدم علیہ السلام کا پتلا بنایا۔ 


(ص:۷۵۔حجر: ۲۸)


پھر اللہ نے پتلے کو کچھ عرسہ کے لئے ویسے ہی چھوڑ دیا جب ابلیس نے اسے دیکھا تو اس کے گرد چکر لگانے لگا اور اس کو بغور دیکھتا رہا۔ اس نے دیکھا کہ پتلا اندر سے خالی ہے تو وہ سمجھ گیا کہ آدم اپنے اوپر قابو نہ رکھ سکیں گے۔ (مسلم)

پھر اللہ تعالیٰ نے جمعہ کے دن عصر کے بعد اس پتلے کو زندہ انسان بن جانے کا حکم دیا۔ حکم سنتے ہی وہ پتلا زندہ انسان بن گیا۔


(آل عمران: ۵۹۔ اور صحیح مسلم)


جب اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو پیدا کیا اور ان کے جسم میں روح پھونکی تو انہیں چھینک آئی انہوں نے اللہ کے حکم سے الحمدللہ کہا ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا یرحمک اللہ۔اللہ تم پر رحم کرے۔ (ابن حبان)

پھر اللہ تعالیٰ نے ان سے فرمایا جاؤان فرشتوں کو سلام کرو اور سنو وہ کیا کہتے ہیں جو کچھ وہ کہیں وہی تمہارا اور تمہاری ذریت کا سلام ہوگا۔ آدم علیہ السلام ان کے پاس گئے اور ان سے کہا: "السلام علیکم "فرشتوں نے جواب دیا 

"وعلیک السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ" (بخاری)


جب اللہ تعالیٰ نے آدم کو پیدا کیا تو تمام فرشتے اللہ کے حکم کے مطابق آدم کے سامنے سجدہ میں گر پڑے لیکن ابلیس نے تکبر کیا اور سجدہ کرنے سے صاف انکار کر دیا اور کہنے لگا میں اس سے بہتر ہوں مجھے تو نے آگ سے پیدا کیا اور آدم کو مٹی سے پیدا کیا۔


(اعراف:۱۱۔۱۲)



  • ابلیس کی حقیقت

ابلیس جنات میں سے ہے اللہ تعالیٰ کا فرما ن ہے(الا ابلیس کان من الجن)مگر ابلیس جنات میں سے تھا۔ ( کھف: ۵۰)
دوسری بات یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ابلیس آگ سے پیدا ہوا اور فرشتے نور سے پیدا ہوئے۔ (مسلم)
تیسری بات یہ ہے کہ ابلیس کی اولاد ہے


(افتتخذونہ وذریتہ اولیاء من دونی) (کھف: ۵۰)


جبکہ فرشتوں میں تناسل کا سلسلہ نہیں ہے۔

اسی طرح ابلیس نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی۔ تکبر کیا، جب کہ ملائکہ اللہ تعالیٰ کے ایسے مکرم بندہ ہیں کہ اللہ کے احکام کی نافرمانی نہیں کرتے ۔
اگر یہ کہا جائے کہ شیطان جب فرشتوں میں نہیں تو اسے سجدہ کرنے کا حکم کیوں دیا گیا؟ جواب یہ ہے:
کہ اسے اپنے علم، اجتھاد اور عبادت کی وجہ سے آسمان میں ایک بلند مقام حاصل تھا۔

پھر اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کی پیٹھ پر مسح کیا مسح کرتے ہی ہر روح جو ان کی اولاد میں قیامت تک پیدا ہونے والی تھی نکل پڑی۔ پھر ان روحوں کو آدم کے سامنے پیش کیا آدم علیہ السلام نے کہا : اے میرے رب! یہ کون لوگ ہیں؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ تمہاری اولاد ہے ۔ آدم علیہ السلام نے ان میں سے ایک شخص کو دیکھا ان کو اس کی آنکھوں کے درمیان جو نور تھا وہ بہت پسند آیا کہنے لگے اے میرے رب! یہ کون ہے؟

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: یہ تمہاری اولاد کی آخری جماعتوں میں ایک شخص ہے۔ جس کا نام داؤد ہے۔ آدم نے پوچھا: اے میرے رب! تو نے اس کی عمر کتنی رکھی ہے؟ اللہ نے فرمایا:۶۰ سال آدم نے عرض کیا اے میرے رب میری عمر سے اس کی عمر میں ۴۰سال بڑھا دے۔ پس اللہ تعالیٰ نے ایسا کر دیا اور اس پر گواہ بھی ٹھہرا دیا۔

پھر جب آدم کی عمر مکمل ہو گئی تو اللہ نے ان کی طرف ملک الموت کو بھیجا تو آدم نے کہا کیا میرے عمر سے ابھی چالیس سال باقی نہیں ہیں؟ملک الموت نے کہا: کیا آپ نے یہ چالیس سال اپنے بیٹے داؤد علیہ السلام کو ہبہ نہیں کیے تھے۔ آدم علیہ السلام نے انکار کر دیا لہٰذا ٓپ کی اولاد بھی انکاری ہے اور آدم بھول گئے لہٰذا آپ کی اولاد بھی نسیان کا شکار ہوگئی۔


 (ترمذی، نسائی، ابن حبان، حاکم)


اسی طرح اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کی پشت سے نکلنے والی اولاد سے میدان عرفات میں عہد لیا۔
اللہ تعالیٰ نے جتنی مخلوق پیدا کرنی تھی ان کو آدم کے آگے چیونٹیوں کی طرح پھیلا دیا پھر ان سے بالمشافہ گفتگو فرمائی


(الست برکم قالوابلی۔۔۔۔۔) (اعراف: ۱۷۲۔۱۷۳)



اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے آدم کی پسلی سے ان کی بیوی کو پیدا کیا 
تاکہ آدم ان سے سکون حاصل کریں۔


 (اعراف: ۱۸۹:بخاری)


پھر اللہ نے انہیں جنت میں رہنے کا حکم دیا۔


 (اعراف: ۱۹)


آدم جمعہ کے دن جنت میں داخل ہوئے۔


 (بخاری)


اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام سے فرمایا تم اپنی بیوی کے ساتھ اس جنت میں رہو اور جہاں سے چاہو خوب کھاؤ پیو لیکن اس درخت کے قریب بھی نہ جانا ورنہ تم نقصان اٹھاؤگے۔ اور یہ ابلیس تمہارا اور تمہاری بیوی کا دشمن ہے۔ اس سے ہوشیار رہنا کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ تمہیں جنت سے نکلوا دے۔الغرض یہاں تم بڑے عیش و آرام سے رہو گے۔


(بقرہ: ۳۵۔طہ:۱۷۔۱۸۔۱۹)


آدم اور ان کی زوجہ جنت میں بڑے آرام سے رہ رہے تھے لیکن ابلیس ان کے پیچھے لگا ہوا تھا اس نے آدم سے کہا اے آدم ! میں تمہیں ایسا درخت نہ بتاؤں کہ جس کو کھا کر تم کو ایسی سلطنت مل جائے جس میں کبھی ضعف نہ آنے پائے۔


 (طہ:۱۲۰)


اور ایک دن ان سے کہنے لگا تمہارے رب نے جو تمہیں اس درخت سے منع کیا ہے صرف اس لئے کہ کہیں تم فرشتے نہ بن جاؤ اور ہمیشہ زندہ رہو اور پھر قسم کھا کر کہا میں تم دونوں کا خیر خواہ ہوں۔


(اعراف: ۲۰۔۲۱)


الغرض اللہ تعالیٰ نے جو عہد آدم علیہ السلام سے لیا تھا آدم اسے بھول گئے اور ابلیس نے بالآخر ان کو ورغلا ہی دیا۔


(طہ:۱۱۵۔اعراف:۲۲)


آدم علیہ السلام کی زوجہ مطہرۃ سیدہ حواہ نے پہلے درخت سے کھایا اور آدم علیہ السلام کو ترغیب دی۔بالآخر دونوں نے درخت سے کھا لیا۔

اسی لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر حواہ نہ ہوتی تو کوئی عورت اپنے خاوند کے ساتھ خیانت نہ کرتی۔


 (بخاری، مسلم)


درخت سے کھانا ہی تھا کہ ان کی شرم گاہیں ایک دوسرے کے سامنے ظاہر ہوگئیں۔ یہ دیکھ کر انہوں نے جنت کے پتے اپنے اوپر چپکانے شروع کر دیئے۔
اللہ تعالیٰ نے انہیں پکار کر فرمایا کیا میں نے تم دونوں کو اس درخت کے کھانے سے منع نہیں کیا تھا۔ اور میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ شیطان تم دونوں کا کھلا دشمن ہے اس سے ہوشیار رہنا۔


 (اعراف: ۲۲)


اللہ تعالیٰ نے آدم کو طویل القامت پیدا کیا تھا سر میں بال گھنے تھے۔ جب انہوں نے اس درخت سے کھا لیا تو ان کا لباس علیحدہ ہوگیا۔ ان کا ستر نظر آنے لگا وہ بھاگے تو ایک درخت نے ان کے بال پکڑ لئے وہ اس سے جھگڑنے لگے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے آدم ! مجھ سے بھاگتے ہو۔ آدم نے عرض کیا: تجھ سے شرم آتی ہے۔ اس نافرمانی کی وجہ سے۔ 


(حاکم ،ابن سعد)


اللہ تعالیٰ نے فرمایا تم یہاں سے اتر کر نیچے چلے جاؤ اب تمہیں کچھ عرصے کے لئے زمین پر رہنا ہے اور وہیں فائدہ اٹھانا ہے۔


 (بقرۃ: ۳۶)


پھر اللہ تعالیٰ نے جمعہ ہی کے دن انہیں زمین پر اترنے کا حکم دیا اور اسی دن وہ زمین پر اتار دئے گئے۔


 (نسائی، ابو داؤد، ابن حبان)


مسائل
(۱) اللہ تعالیٰ نے اس درخت کا تعین نہیں کیا جس سے آدم کو منع کیا گیا تھا، اور تعین میں ہمارے لئے کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اگر ہوتا تو اللہ تعالیٰ ہمارے لئے ضرور بیان فرما دیتا۔
اور قرآن کی تفسیر کرنے والے کے لئے ضروری ہے کہ وہ قرآن کے مبھم مقامات کا تعین اس وقت تک نہ کرے جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح صریح حدیث نہ مل جائے۔
(۲) آدم علیہ السلام کتنی مدت جنت میں رہے اور ان کی اولاد جنت میں ہوئی یا نہیں ان کے متعلق صحیح معلومات ثابت نہیں ہیں۔
(۳) آدم علیہ السلام کی اولادمیں شادی طریقہ۔
تاریخ میں نقل ہے کہ حواء کے ہاں ہر حمل سے ایک لڑکا اور ایک لڑکی پیدا ہوتے تھے۔ ایک حمل سے پیدا ہونے والا لڑکا دوسرے حمل سے پیدا ہونے والی لڑکی سے شادی کرتا تھا۔
(۴) اس جنت کی حقیقت جس میں آدم علیہ السلام اور ان کی بیوی تھے اس جنت سے مراد وہ جنت ہے جو آسمان میں ہے۔
حدیث میں ہے کہ قیامت کے دن جب لوگ جنت کے قریب ہو جائیں گے تو آدم علیہ السلام کے پاس آئیں گے کہیں گے : اے ہمارے باپ! ہمارے لئے جنت کو کھلوا دو، تو آدم علیہ السلام کہیں گے تم کو اس جنت سے صرف تمہارے باپ کی غلطی نے نکالا تھا۔


(مسلم) 


  • آدم علیہ السلام کی توبہ

آدم علیہ السلام اپنی زوجہ کے ساتھ زمین پر آگئے ۔اللہ تعالیٰ نے ان کو مندرجہ ذیل دعائیہ کلمات سکھائے:"ربنا ظلمنا انفسنا وان لم تغفرلنا وترحمنا لنکونن من الخاسرین


(اعراف: ۲۳)


ان دونوں نے ان دعائیہ کلمات کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے معافی مانگی اللہ تعالیٰ نے جمعہ کے روز ان کی توبہ قبول فرمائی۔


 (بقرۃ:۲۷، اعراف:۲۳، النسائی)


جب آدم علیہ السلام زمین پر رہنے لگے تو پھر اللہ نے ان کے لئے عمدہ لباس کا انتظام فرمایا۔


(اعراف :۲۶)


اور اللہ تعالیٰ نے ان کی اولاد کو عزت و کرامت سے سر فراز فرمایا۔ بحرو بر میں ان کی نقل و حرکت کے لئے سواریاں مہیا کیں اور ان کے لئے پاکیزہ کھانوں کا انتظام فرمایا اور اپنی بہت سی مخلوقات پر برتری عطا فرمائی۔


 (اسراء:۷)


  • آدم علیہ السلام کے دو بیٹوں کا واقعہ


آدم علیہ السلام کی اولاد بہت ہوئی ان میں سے دو نے ایک مرتبہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربانی پیش کی اللہ نے ایک کی قربانی قبول فرمائی دوسرے کی نہیں، جس کی قربانی قبول نہیں ہوئی اپنے بھائی سے کہنے لگا میں تجھے ضرور قتل کروں گا۔
بھائی نے جواب دیا کہ اللہ تعالیٰ تو متقی لوگوں کی قربانی قبول فرماتا ہے ،تم میں تقویٰ نہیں ہے۔ اس لئے تمہاری قربانی قبول نہیں ہوئی اس میں میرا کیا قصور ہے۔بالآخر اس نے اپنے بھائی کو قتل کیا، قتل کرنے کے بعد سمجھ نہیں آیا کہ اپنے مقتول بھائی کی لاش کا کیا کرے، اللہ تعالیٰ نے ایک کوا بھیجا جو زمین پر اتر کر زمین کو کریدنے لگا قاتل بھائی نے کوے سے سیکھا کہ کس طرح اپنے بھائی کی لاش کو چھپائے۔ پھر اپنے اس فعل پر بہت نادم ہوا اور افسوس کیا۔


(مائدہ: ۲۸تا ۳۱)



قاتل کا نام قابیل تھا۔

مقتول کا نام ہابیل تھا۔

قابیل پہلا شخص ہےجس نے بنی آدم میں قتل کو جار ی کیا۔


 (بخاری)


آدم علیہ السلام بہت روئے اس قتل پر اور افسوس کیا۔

  • آدم علیہ السلام کی وفات

آدم علیہ السلام کی عمر اللہ تعالیٰ نے ہزار سال رکھی تھی۔ آدم نے چالیس سال اپنی عمر میں سے داؤد علیہ السلام کو ہبہ کیےتھے۔
جب آدم علیہ السلام کی عمر پوری ہو گئی تو ملک الموت ان کے پاس آیا آدم علیہ السلام نے کہا کیا میری عمر کے ابھی چالیس سال باقی نہیں ہیں؟ ملک الموت نے کہاآپ نے چالیس سال اپنے بیٹے داؤد کو نہیں دئے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آدم نے انکار کیا ان کی اولاد بھی انکار کرتی ہے وہ بھول گئے ان کی اولاد بھی بھولتی ہے۔


(ترمذی)


بہر حال اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کی عمر ایک ہزار سال کر دی اور داؤد علیہ السلام کی عمر ۱۰۰ سال کر دی۔


 (ابو داؤد)


ہابیل کے مرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السللام کو ایک بیٹا دیا انہوں نے ان کا نام شیث علیہ السلام رکھا۔
اور اپنی وفات سے پہلے شیث علیہ السلام کو وصیت کی۔ جب فرشتوں نے آدم علیہ السلام کی روح قبض کر لی۔ فرشتے اپنے ساتھ کفن اور خوشبو لے کر آئے تھے۔ پھر فرشتوں نے انہیں غسل دیا، کفن پہنایا، اور نماز جنازہ پڑھی، قبر کھودی اور لحد میں دفن کیا۔پھر کہا اے بنی آدم یہ ہے تکفین و تدفین وغیرہ کا طریقہ۔


 (حاکم ،طبرانی کبیر)



  • آدم علیہ السلام کا انتقال جمعہ کے روز ہوا۔ (ابن خزیمہ)دفن کی جگہ نا معلوم ہے۔ 

آدم علیہ السلام کے انتقال کے بعد سیدہ حواء کا انتقال ہوگیا۔
آدم علیہ السلام کا قد ساٹھ ہاتھ تھا۔ 


(بخاری)



آدم علیہ السلام کی نافرمانی

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: آدم علیہ السلام نے اپنے رب کی نافرمانی کی پس بہک گئے۔


 (طہ: ۲۱)


ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ موسیٰ علیہ السلام نے آدم علیہ السلام سے بحث کی کہ آپ نے لوگوں کو اپنی غلطی ۔گناہ۔ کے سبب سے جنت سے نکلوایا اور انہیں بد بخت بنایا۔
آدم علیہ السلام نے فرمایا اے موسیٰ علیہ السلام !اللہ تعالیٰ نے آپ کو رسالت اور کلام کرنے کے لئے چنا اور آپ مجھے ایک ایسے معاملےمیں ملامت کر رہے ہیں۔ جو اللہ تعالیٰ نے میری تخلیق سے قبل لکھ دیا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آدم علیہ السلام دلیل کے ذریعہ موسیٰ علیہ السلام پر غالب آگئے۔


 (بخاری ۔ مسلم)


حدیث شفاعت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :کہ لوگ محشر کے دن آدم علیہ السلام کے پاس آکر کہیں گے۔ اے آدم ! آپ ابو البشر ہیں اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے ہاتھ سے بنایا ہے اور آپ میں روح پھونکی اور فرشتوں کو آپ کے لئے سجدہ کرنے کا حکم دیا اور جنت کو آپ کا ٹھکانا بنایا کیا آپ اپنے رب کے پاس ہمارے سفارشی نہیں بنیں گے۔
آدم علیہ السلام ارشاد فرمائیں گے آج میرے رب کو اس قدر شدید غصہ آیا ہوا ہے کہ اتنا غصہ اس سے پہلے کبھی نہیں آیا اور نہ ہی بعد میں آئے گا۔اس نے مجھے درخت کے کھانے سے منع کیا تھا۔ میں نے نا فرمانی کی اس لئے میرے علاوہ نوح علیہ السلام کے پاس چلے جاؤ، مجھے تو آج اپنی جان کی فکر ہے۔


 (بخاری )


         

  • محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بن عبد اللہ

احمد، ابوالقاسم، ابوالطیب، نبی التوبہ، نبی الرحمۃ، بدر الدجی، نور الہدی, خیر البری, نبی المرحمۃ، نبی الملحمۃ، الرحمۃ المہداۃ، حبیب الرحمن، المختار، المصطفی، المجتبی، الصادق، المصدق، الامین، صاحب مقام المحمود، صاحب الوسیلۃ والدرجۃ الرفیعۃ، صاحب التاج والمعراج، امام المتقین، سید المرسلین، النبی الامی، رسول اللہ، خاتم النبیین، الرسول الاعظم، السراج المنیر، الرؤوف الرحیم، العروۃ الوثقی
پیدائش  ربیع الاول 53ق ھ / اپریل 571ء (مشہور قول کے مطابق)
مکہ مکرمہ
وفات  ربیع الاول 10ھ / جون 632ء
مدینہ منورہ
معظم در  اسلام
بعثت  رمضان 12ق ھ / اگست 610ء، غار حرا در مکہ مکرمہ
مرکز قیام  مدینہ منورہ کی مسجد نبوی میں واقع حجرہ عائشہ
نسب  اسماعیل بن ابراہیم کی نسل میں قریش عرب سے
والدہ آمنہ بنت وہب
والد عبدللہ بن عبدالمطلب
رضاعی والدہ حلیمہ سعدیہ
رضاعی والد حارث بن عبد العزی
اولاد نرینہ قاسم، عبد اللہ، ابراہیم
صاحبزادیاں زینب، رقیہ، ام کلثوم، فاطمہ
ازواج مطہرات خدیجہ بنت خویلد، سودہ بنت زمعہ، عائشہ بنت ابوبکر، حفصہ بنت عمر، زینب بنت خزیمہ ام سلمہ، زینب بنت جحش، جویریہ بنت حارث، ام حبیبہ، صفیہ بنت حی بن اخطب، میمونہ بنت حارث، ماریہ القبطیہ (باختلاف اقوال)
  • محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم 

(570ء (54 ق‌ھ) یا 571ء (53 ق‌ھ) تا 632ء (10ھ)) دنیاوی تاریخ میں اہم ترین شخصیت کے طور پرنمودار ہوئے اور ان کی یہ خصوصیت عالمی طور (مسلمانوں اور غیرمسلموں دونوں جانب) مصدقہ طور پر تسلیم شدہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تمام مذاہب کے پیشواؤں سے کامیاب ترین پیشوا تھے۔ 

 آپ کی کنیت ابوالقاسم تھی۔ مسلمانوں کے عقیدہ کے مطابق حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اللہ کی طرف سے انسانیت کی جانب بھیجے جانے والے انبیاءاکرام کے سلسلے کے آخری نبی ہیں جن کو اللہ نے اپنے دین کی درست شکل انسانوں کی جانب آخری بار پہنچانے کیلئے دنیا میں بھیجا۔ انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم دنیا کی تمام مذہبی شخصیات میں سب سے کامیاب شخصیت تھے۔
  570ء (بعض روایات میں 571ء) مکہ میں پیدا ہونے والے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر قرآن کی پہلی آیت چالیس برس کی عمرمیں نازل ہوئی۔ ان کا وصال تریسٹھ (63) سال کی عمر میں 632ء میں مدینہ میں ہوا، مکہ اور مدینہ دونوں شہر آج کے سعودی عرب میں حجاز کا حصہ ہیں۔ 

  • محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ;
  •  بن عبداللہ بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبد مناف کے والد کا انتقال ان کی دنیا میں آمد سے قریبا چھ ماہ قبل ہو گیا تھا اور جب ان کی عمر چھ سال تھی تو ان کی والدہ حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا بھی اس دنیا سے رحلت فرما گئیں۔ عربی زبان میں لفظ "محمد" کے معنی ہیں 'جس کی تعریف کی گئی'۔ یہ لفظ اپنی اصل حمد سے ماخوذ ہے جس کا مطلب ہے تعریف کرنا۔ یہ نام ان کے دادا حضرت عبدالمطلب نے رکھا تھا۔ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو رسول، خاتم النبیین، حضور اکرم، رحمت للعالمین اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے القابات سے بھی پکارا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی آپ کے بہت نام و القاب ہیں۔ نبوت کے اظہار سے قبل حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے چچا حضرت ابوطالب کے ساتھ تجارت میں ہاتھ بٹانا شروع کر دیا۔ اپنی سچائی ، دیانت داری اور شفاف کردار کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم عرب قبائل میں صادق اور امین کے القاب سے پہچانے جانے لگے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنا کثیر وقت مکہ سے باہر واقع ایک غار میں جا کر عبادت میں صرف کرتے تھے اس غار کو غار حرا کہا جاتا ہے۔ یہاں پر 610ء میں ایک روز حضرت جبرائیل علیہ السلام (فرشتہ) ظاہر ہوئے اور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اللہ کا پیغام دیا۔ جبرائیل علیہ السلام نے اللہ کی جانب سے جو پہلا پیغام حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو پہنچایا وہ یہ ہے۔
  
    ترجمہ: پڑھو (اے نبی) اپنے رب کا نام لے کر جس نے پیدا کیا (1) پیدا کیا انسان کو (نطفۂ مخلوط کے) جمے ہوئے خون سے (2)

 


      یہ ابتدائی آیات بعد میں قرآن کا حصہ بنیں۔ اس واقعہ کے بعد سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے رسول کی حیثیت سے تبلیغ اسلام کی ابتداء کی اور لوگوں کو خالق کی وحدانیت کی دعوت دینا شروع کی۔ انہوں نے لوگوں کو روزقیامت کی فکر کرنے کی تعلیم دی کہ جب تمام مخلوق اپنے اعمال کا حساب دینے کے لئے خالق کے سامنے ہوگی۔ اپنی مختصر مدتِ تبلیغ کے دوران ہی انہوں نے پورے جزیرہ نما عرب میں اسلام کو ایک مضبوط دین بنا دیا، اسلامی ریاست قائم کی اور عرب میں اتحاد پیدا کر دیا جس کے بارے میں اس سے پہلے کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی محبت مسلمانوں کے ایمان کا حصہ ہے اور قرآن کے مطابق کوئی مسلمان ہو ہی نہیں سکتا جب تک وہ ان کو اپنی جان و مال اور پسندیدہ چیزوں پر فوقیت نہ دے۔ قیامت تک کے مسلمان ان کی امت میں شامل ہیں۔

مکی دور

 

      570ء (54 ق‌ھ) والد کی وفات۔

    571ء (53 ق‌ھ) ولادت با سعادت مکہ میں۔
    576ء (47 ق‌ھ) والدہ کی وفات۔
    578ء (45 ق‌ھ) دادا کی وفات۔
    583ء (40 ق‌ھ) چند مرتبہ سفر شام پیش آیا۔
    595ء (28 ق‌ھ) شادی خدیجہ بنت خویلدرضي الله عنه سے۔
    610ء (12 ق‌ھ) نزول جبریل اور پہلی وحی اقراء کا نزول۔
    610ء (12 ق‌ھ) بعثت۔
    613ء (9 ق‌ھ) رسالت کے پیغام کے اخفاء کے بعد قریش کے سامنے اظہار۔
    615ء (7 ق‌ھ) ہجرت حبشہ۔
    616ء (6 ق‌ھ) بنی ہاشم کا معاشرتی بائیکاٹ۔
    618ء (4 ق‌ھ) یثرب کی خانہ جنگی۔
    619ء (3 ق‌ھ) بنی ہاشم کے بائیکاٹ کا اختتام۔
    619ء (3 ق‌ھ) عام الحزن، چچا ابو طالب اور زوجۂ محترمہ حضرت خدیجہ رضي الله عنه کا انتقال۔


    620ء (2 ق‌ھ) معراج۔


    622ء (0ھ) ہجرت مدینہ منورہ۔     

  •   مدنی دور 

    618ء (4 ق‌ھ) یثرب کی خانہ جنگی۔
    622ء (0ھ)  ہجرت مدینہ۔
    624ء (2ھ)  غزوہ بدر اور مسلمانوں کی فتح۔
    624ء (2ھ)  بنی قینقاع کی جلاوطنی۔
    625ء (3ھ)  غزوہ احد اور مسلمانوں کے مابین اختلاف اور ہزیمت۔
    625ء (3ھ)  بنی نضیر کی جلاوطنی۔
    627ء (5ھ)  غزوہ خندق اور مسلمانوں کی فتح۔
    627ء (5ھ)  غزوہ بنی قریظہ اور ان کی جلاوطنی۔
    628ء (6ھ)  صلح حدیبیہ میں قریش مکہ سے صلح۔
    628ء (6ھ) بیت عتیق میں مسلمانوں کی ادائیگیٔ نماز کے لیے قریش کی رضامندی۔
    629ء (7ھ)  غزوہ خیبر اور مسلمانوں کی فتح۔
    629ء (7ھ)  غزوہ موتہ اور مسلمانوں کی فتح۔
    630ء (8ھ)  فتح مکہ زادھا اللہ شرفاً وإجلالاً۔
    630ء (8ھ) غزوہ حنین اور مسلمانوں کی فتح۔
    630ء (8ھ) غزوہ طائف اور مسلمانوں کی فتح۔
    632ء (10ھ) غزوہ تبوک اور مسلمانوں کی فتح۔
    632ء (10ھ)  حجۃ الوداع۔

632ء (10ھ)  مدینہ منورہ میں رفیق اعلی سے جاملے۔

 

  • اوّل بیت

امہات المؤمنین
اولاد محمد

    قاسم
    زینب
    رقیہ
    ام کلثوم
    فاطمہ
    عبداللہ
    ابراہیم
اہل بیت
اہلسنت والجماعت
    امہات المؤمنین
    اولاد (القاسم وعبد الله وابراہيم وزينب ورقيہ وام كلثوم وفاطمہ)
    احفاد (حسن وحسين)
    عباس بن عبد المطلب
    جعفر بن ابی طالب
    عقيل بن ابی طالب
    علی ابن ابی طالب
شیعہ
    علی ابن ابی طالب
    فاطمہ بنت محمد
    حسن ابن علی
    حسین ابن علی
    ائمہ کرام

  

    632ء (10ھ)  مدینہ منورہ میں رفیق اعلی سے جاملے۔

No comments:

Post a Comment

امن کا پیغام پڑھنے والوں کےلیے اک اچھی کاوش ثابت ہوگا انشآء اللہ اس میں آرٹیکل
شاعری اور بہت کچھ مفید ملے گاقرآن اوراحادیث کے متعلق